کھیل
Time 08 دسمبر ، 2017

پی سی بی کی کھلاڑیوں کو مشکوک ٹی ٹین لیگ کھیلنے کی اجازت

پاکستان کرکٹ بورڈ نے پاکستانی کھلاڑیوں کو مشکوک ٹی ٹین لیگ کھیلنے کی اجازت دے دی ہے۔ 

اس حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا ہے کہ قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی گئی‘مالی مفادات کے سبب پی ایس ایل فرنچائز پریشان ہیں، تاہم نمائندہ دی نیوز کا موقف ہے کہ پی سی بی معاہدے کی تفصیلات سامنے نہیں لارہا ہے اور کئی طرح سے قواعد و ضوابط پر عمل نہ کرنے کے سبب معاملہ مشکوک ہوا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی قیادت نے چند افراد کو فائدہ پہنچانے کے لئے متنازع طور پر اپنے کنٹریکٹ کے حامل کرکٹرز کو شارجہ میں اس ماہ ایک مشکوک اور بھارتی شہریوں کی ملکیت لیگ کھیلنے کی اجازت دے دی ہے اور اس کا فارمیٹ بھی آئی سی سی سے منظور شدہ نہیں ہے۔ 

امکان ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں پی سی بی کے اپنے کامیاب پاکستان سپر لیگ کی قدروقیمت ختم ہوجائے گی۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارت نے اس لیگ میں اپنا ایک بھی کھلاڑی نہیں بھیجا ہے جس میں 6 سے 5 ٹیمیں بھارتی شہریوں کی ملکیت ہیں جبکہ ایک کا مالک افغان شہری ہے۔ 

پی سی بی کو اس کھلاڑیوں کو این او سی جاری کرنے کی بڑی عجلت تھی جن کے سینٹرل کنٹریکٹ تھے کیونکہ پی ایس ایل کے فرنچائز مالکان کو نجی انڈین لیگ میں کھلاڑیوں کو بھیجنے پر بہت تحفظات تھے۔ 

پی ایس ایل فرنچائز مالکان کی جانب سے اس قدر سخت ردعمل کی وجہ سے پی سی بی میں سینئرز جنہوں نے پہلے اس مسئلے پر ووٹنگ کا راستہ اختیار کیا تھا لیکن بعد میں ٹی ٹین لیگ کو سپورٹ کرنے کے فیصلے کا ٹوئٹ کرنے کا انتخاب کیا۔ 

کرکٹ کے مبصرین نے اس فیصلے کو پی ایس ایل کے لئے پی سی بی کے خودکشی مشن سے تعبیر کیا ہے کیونکہ پاکستان کی پہلی سطح کے کھلاڑیوں کی شرکت سے ٹی ٹین لیگ کی قدروقیمت کئی گنا بڑھ گئی ہے اور یہ پی ایس ایل سے قبل منی پی ایس ایل بن جائے گی۔ کئی لوگوں کے کان کھڑے ہوئے ہیں کہ پاکستان کرکٹ کے لئے اتنا پڑا قدم اٹھاتے ہوئے معمول کا طریقہ کار کیوں اختیار نہیں کیا گیا۔ یواے ای سے دعوت نامہ کب حاصل ہوا۔

پی سی بی نے اسے کس طرح ٹریٹ کیا؟ نجی بھارتی لیگ میں پاکستانی کھلاڑیوں کو بھیجنے یا نہ بھیجنے پر کوئی جائزہ لیا گیا تھا؟ سینئر کھلاڑیوں کو ٹی ٹین لیگ میں بھیج کر پی سی بی کیا فوائد حاصل کرے گی؟ پاکستانی کھلاڑیوں کو اجازت دیتے ہوئے کوئی قیمت مقررکی گئی تھی اور کیا وہ مارکیٹ ویلیو دیگر بولی لگانے والوں کے لئے دستیاب تھی؟

پی سی بی کے بورڈ آف گورنر میں اس مسئلے پرتبادلہ خیال ہوا تھا؟جب پی سی بی نے پی ایس ایل کے فرینچائز مالکان کے سامنے وعدہ کیا تھا تو ووٹنگ کیوں نہیں کرائی؟کیا پی سی بی کو ٹی ٹین لیگ کے منتظمین کی جانب سے کوئی فائدہ پہنچایا گیا ہے؟پی ایس ایل فرنیچائز کے مالکان اس فیصلے پر بے چینی محسوس کر رہے ہیں کیونکہ ٹی ٹین لیگ، پی ایس ایل سے پہلے ہو رہی ہے۔

ٹی ٹین لیگ اسی جگہ منعقد ہو رہی ہے جہاں پی ایس ایل منعقد کرانے کا منصوبہ ہے اور کسی تخمینے کے بغیر پاکستانی کھلاڑیوں کو اجازت دینے سے پی ایس ایل کی ویلیو تباہ ہی ہوگی۔ قبل ازیں 4 ستمبر 2017 کو پی ایس ایل فرنیچائز کراچی کنگ کے نمائندوں نے چیئرمین پی سی بی کو ایک ای میل تحریر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ فرینچائزز اس تشویش کا اظہار کرنا چاہتی ہیں کہ ایسی لیگز کا پی ایس ایل پر اثر پرے گا اور اس سے دبئی میں ہمارے موجودہ اور ممکنہ اسپانسرز یہاں تک کہ جو پاکستان میں بھی ہیں وہ خطرے میں پڑ جائیں گے۔

اس لئے ہم تمام اس نکتے پر متفق ہیں کہ نومبر اور دسمبر اسپانسرز کو فائنلائز کرنے کے لئے ہمارے اہم مہینے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ مہربانی فرما کر اس معاملے کو دیکھیں اور ٹورنامنٹ کو محدود کرنے کے لئے کچھ ممکنہ اقدام کریں جیسے پاکستانی کرکٹرز کو اس لیگ کے لئے کھیلنے کی اجازت نہ دی جائے۔ 

دی نیوز کے تحقیقاتی سیل نے متعدد ذرائع سے پی ایس ایل سیکرٹریٹ کے منٹس اور ای میلز دیکھی ہیں اور پی سی بی اور پی ایس ایل کے فرنیچائز مالکان کے بیان سے تمام فرینچائز مالکان کے متفقہ احتجاج کی تصدیق کی ہے۔

ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پشاور زلمی کے نمائندے نے کہا کہ پی سی بی یہ وضاحت نہیں کر سکی کہ ایسا متنازع فیصلہ کرتے ہوئے اس نے کیا فوائد حاصل کیے؟ انہوں نے سوال کیا کہ کیا پاکستان اور بھارت کے مابین باہمی سیریز بحال ہوگئی ہے؟ ملتان اور اسلام آباد فرنیچائز کے مالکان نے دعوی کیا ہے کہ پی سی بی کو یہ چوائس دی گئی تھی کہ وہ اپنے ریٹائرڈ یا دوسری سطح کے کھلاڑیوں کو بھیج سکتا ہے لیکن انہیں نہیں جو پی ایس ایل سے نکلے ہیں اور اب بڑے اسٹار ہیںلیکن تمام تجاویز پر کان نہیں دھرا گیا۔ 

ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک فرینچائز مالک نے کہا کہ ٹی ٹین میں اتنی بھاری بھارتی فنڈنگ کے ساتھ اس بات کا بہت امکان ہے کہ پاکستانی کھلاڑیوں کو ٹریپ کیا جائے گا اور بعد میں انہیں پی ایس ایل میں انگلیوں پر نچانے کے لئے بلیک میل کیا جائے گا۔ٹی ٹین لیگ دراصل پی ایس ایل کے لئے جواریوں کا گیٹ وے ہے اور آئی سی سی کی جانب سے تسلیم شدہ یا ریگولیٹیڈ نہیں ہے۔

تفصیلات سے پتہ چلتا ہے کہ ٹی ٹین لیگ دبئی میں ایک کروڑ پتی بھارتی کی ملکیت کمپنی ہے اور اس کا کھیلوں کا کوئی پس منظر نہیں ہے۔ 

پی سی بی کے سابق چیئرمین ذکا اشرف سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کیا وجوہات ہیں کہ پی سی بی کے دل میں بھارتی بزنس مین کے لئے جو یو اے ای میں نجی لیگ کرارہا ہے، اچانک ہی نرم گوشہ پیدا ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ پی سی بی کا یہ قدم خاص طور پر پی ایس ایل اور بالعموم ملک میں کرکٹ کو تباہ کرنے کے لئے ہے۔

 سینئر قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ پی سی بی جو پی ایس ایل کی مالک اور اسے کنٹرول کرتی ہے، سرکاری ادارے کی حیثیت سے قانونی طور پر پابند ہےکہ وہ تمام فیصلے قانون کے مطابق شفاف انداز میں اور پی سی بی، پی ایس ایل اور اس کے فرینچائز مالکان اور نجی پارٹی کے مفاد کے بجائے ریاست پاکستان کے بہترین مفاد میں کرے ۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح یہ فیصلہ کیا گیا اور ٹوئٹر سے اس کا اعلان کیا گیا وہ قانون کی خلاف ورزی کی مثال ہے پاکستان کے قانون کے تحت ناقابل قبول ہے۔ 

یہاں تک کہ اگر پی سی بی نے اپنے کھلاڑیوں کو نجی پارٹیز کے لئے کھیلنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کر بھی لیا تھا تو انہوںنے دعوی کیا کہ پھر پاکستانی قانون کے تحت پی سی بی پابند تھی کہ وہ بولی کا شفاف عمل منعقد کرتی کم از کم یہی ظاہر کرنے کے لئے کہ وہ اپنے اثاثے یا حقوق بلند ترین قیمت پر فروخت کر رہا ہے۔ 

قانونی ماہر نے یہ دعوی بھی کیا کہ اگر پی سی بی کا ٹویٹر فیصلہ عدالت میں چیلنج کردیا گیا تو پی سی بی کو عدالت کو مطمئن کرنا ہوگا کہ اس نے فیصلہ قانون کے مطابق پی سی بی اور پی ایس ایل کے ساتھ پاکستان کے بہترین مفادمیں کیا ہے۔

 جاوید میاں داد نے دی نیوز کے رابطہ کرنے پر کہا کہ اگر ٹی ٹین لیگ میں کچھ بھی منفی ہوا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ وزیرا عظم پاکستان جو پی سی بی کے پیٹرن ان چیف ہیں انہیں پی سی بی کی اس فاش غلطی کا نوٹس لینا چاہیے۔ 

سابق کرکٹر ظہیر عباس کہتے ہیں کہ ہماری لیگ پی ایس ایل قریب ہےاور پی ایس ایل فرینچائزوں سے اسپانسر ڈیل طے کر رہے ہیںتو ایسے میں یہ دانشمندی نہیں تھی کہ پاکستان کے ٹاپ کے کھلاڑیوں کو ٹی ٹین لیگ میں شامل ہونے کی اجازت دی جاتی کیونکہ اس سے پی ایس ایل کے ممکنہ اسپانسر شپ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ 

یہاں تک کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے پاکستان کرکٹ کو بچانے کیلئے فوری طور پر ایکشن لینے کی درخواست کر دی گئی ہے۔ انہیں بھیجی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’’میں آپ کی توجہ ایک بہت سنگین ساز ش کی جانب متوجہ کرانا چاہتا ہوںجو کرکٹ کھیلنے والی اقوام میں پاکستان کو تنہا اور ہمارے کھلاڑیوں کو ٹی ٹین لیگ میں ملوث کر کے ملک کو بدنام کرنے کی ہے۔

 یہ آئی سی سی سے منظور شدہ نہیں ہے اور اس میں بھارتی بھرے ہوئے ہیں۔ جہاں تک بھارتیوں کا تعلق ہے تو پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت پاکستانی کرکٹ کا بائیکاٹ کر رہا ہے اپنی حکومت اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پالیسی کے آلہ کار کے طور پر پاکستان میں کرکٹ یا کھیلوں کے احیا میں رکاوٹ ڈال رہا ہے، پاکستان میں غیر ملکی کھلاڑیوں سلامتی کے خطرات کو جھوٹ موٹ بڑھا کر پیش کرتا ہے۔

یہاں تک کہ بھارت نے کسی تیسرے مقام پر بھی کرکٹ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے۔بھارت میں لیگ ٹورنامنٹس میں ہمارے کرکٹ، ہاکی اور کبڈی کے کھلاڑیوں کو شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی اور اپنے کرکٹرز کو بھی ہمارے پی ایس ایل میں کھیلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ 

اب اچانک ہی بھارتی شارجہ میں نہ صرف کھیلنے کے لئے اُگ آئے ہیں بلکہ بھارتی شہریوں نلیش بھٹ ناگر اور انیس اور رضوان سجن نے گجرات ٹائیگرز خرید لی ہے جو ٹین کرکٹ لیگ میں شرکت کرے گی۔ مزید یہ کہ اس لیگ کی 6 ٹیموں میں سے پانچ کے مالک بھارتی ہیں اور ایک افغانی ہے۔

پی سی بی نے دانش مندانہ اندا ز میں عمل کرنے کے بجائے 25 سے زیادہ پاکستانی کھلاڑیوں کو اس مشکوک کرکٹ لیگ میں کھیلنے کی اجازت دے دی ہے۔جو پاکستانی کرکٹ کے لئے تباہ کن ہو سکتا ہے کیونکہ کسی بھی اسپاٹ فکسنگ کا ہونا اور نتیجے میں ہمارے کھلاڑیوں پر پابندی کے نتیجے میں ہمارے پی ایس ایل، پاکستان کی انٹرنیشنل کرکٹ کو شدید نقصان پہنچے گا اور پاکستان کا تاثر مجروح ہوگا۔ 

یہ پی سی بی کا ایک ناقابل معافی عمل ہے جس کے لئے آپ سے درخواست ہے کہ معاملے میں فوری مداخلت کریںاور پی سی بی کے تمام بورڈ آف گورنر کے ارکان کو حکم دیں کہ وہ فوری اقدام کرتے ہوئے چیئرمین پی سی بی کی جانب سے 25 پاکستانی کھلاڑیوں کو دیا گیا این او سی منسوخ کریں۔‘‘پی سی بی چیئرمین نجم سیٹھی سے رابطہ کیا گیا اور پیغام بھیجا گیا لیکن انہوں نے اس خبر کے فائل ہونے تک کوئی جواب نہیں دیا۔ 

تاہم پی سی بی سے غیر سرکاری جواب یہ تھا کہ ’’ٹی ٹین لیگ کمپنی دبئی سے باہر قائم ہے اور ہمیں میزبان ملک کی بات ماننا ہوتی ہے کیونکہ ہمارے ان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے کھلاڑیوں کو انٹرنیشنل کرکٹ کا زیادہ تجربہ ہو رہا ہے۔

 پی سی بی کی جانب سے قواعد کی خلاف ورزی نہیں کی گئی لیکن پی ایس ایل کے فرینچائز پریشان ہیں کیونکہ یہ ان کے مالی مفادات کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ تاہم پی سی بی کے ذہین میں کرکٹ ڈولپمنٹ کا زیادہ بڑا مقصد موجود ہے۔‘‘ پی سی بی کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس نمائندے سے کہا کہ پہلے یہ فیصلہ ہوا تھا کہ پاکستان اپنے کھلاڑی ٹی ٹین لیگ میں نہیں بھیجے گا لیکن بعد میں ایک فرینچائز کے مالک نے چیئرمین پی سی بی کو رضامند کر لیا کہ انڈین کی ملکیت لیگ میں پاکستانی کھلاڑیوں کو کھیلنے کی اجازت دی جائے۔

 28 جولائی 2017کو لاہور میں پی سی بی کے گورننگ بورڈ کے 45 ویں اجلاس کے نکات سے انکشاف ہوتا ہے کہ ارکان نے اتفاق رائے سے کہا کہ ایسا کوئی ایونٹ جو پی ایس ایل کے مفادات کے خلاف ہو ، پی سی بی کو چاہیے کہ اس کی مخالفت کرے اور بورڈ آف گورنرز سے اس کی منظوری لے لیکن اس کے ساتھ ہی اگر اماراتی کرکٹ بورڈ ایسے کسی وینچر کی سپورٹ کرتا ہے تو اس سے کشیدگی پیدا نہیں کرنی چاہیے۔

 جبکہ 22 نومبر کو منعقد ہونے والے 47 ویں اجلاس میں پی سی بی کے بورڈ اجلاس کے نکات کہتے ہیں کہ بورڈ آف گورنرز کی جانب سے دی گئی گائیڈلائنز کے مطابق پی سی بی نے اپنے کھلاڑیوں کو دسمبر 2017 میں ہونے والی ٹی ٹین میں شرکت کرنے کی منظوری دیدی ہےجسے اماراتی کرکٹ بورڈ نے سینکشن کیا ہے۔ 

یہ منظوری تمام اسٹیک ہولڈرز سے غیرمعمولی تبادلہ خیال کے بعد دی گئی جس میں پی ایس ایل کے اسپانسرز بھی شامل تھے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ فیصلہ پی ایس ایل پر اثر نہیں ڈالے گا۔ 

پی سی بی کو بھی مالی فائدہ ہوگا کیونکہ اس نے اپنے کھلاڑیوں کو این او سی جاری کرنے کے عوض منتظمین سے چار لاکھ ڈالر فیس وصول کرنے کے لئے بات طے کی ہے۔اس اسٹوری میں شفافیت کی کمی تھی اور پی سی بی کا پرائیویٹ پارٹی کے حق میں فیصلہ سمجھ سے بالاتر تھا۔

اس کی تردید میں پی سی بی نے بالواسطہ یہ تسلیم کرلیا ہےکیوں کہ اس نے یہ نہیں بتایا کہ درخواست کس طرح موصول ہوئی اور اس کی جانچ پڑتال کیسے کی گئی اور اس عمل میں حتمی منظوری تک کون شامل رہاتھا۔

مروجہ طریقہ کار پر عمل نہ کرنا اور شفافیت کی کمی کے باعث اسٹوری کو ’’میڈیا وار‘‘اور’’قومی مفاد کو کمزور کرنا‘‘کہنا بھی ایک دفاعی انداز ہے، جس سے پی سی بی کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔

پی سی بی کا فیصلہ کافی حد تک غیر متوقع تھا کہ ہمیں صرف اس کے اعلامیے سے پتہ چلا کہ پی سی بی کو اپنے کرکٹرز کو پرائیویٹ لیگ کی اجازت دینے کے سبب صرف 4کروڑ روپے ملے ، پی ایس ایل فرنچائز کے مالک ہی نئی لیگ کے شریک مالک ہیں۔یہ مفادات کے تصادم کا اقرار تھا جسے نظر انداز کردیا گیااور یہ کہ بھارتی مالکان بھی شریک تھے ، چاہے وہ پی سی بی کے مطابق بہت کم تھے۔

پی سی بی نے شامل کمپنیوں کی فنڈنگ اور اصل ملکیت کو یقینی بنانے کے لیے کیا ضروری تدابیر اختیار کیں۔کیا پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو اس عمل میں شامل کیا گیا تھا کہ وہ اس کے پس منظر، افراد اور کمپنیوں کی فنڈنگ کا جائزہ معاہدے کو حتمی شکل دینے سے پہلے لیتے۔

 4لاکھ ڈالرز کے اعداد کیسے سامنے آئے؟اس کے لیے مسابقتی مارکیٹ کی قیمت کی جانچ کا طریقہ کار، ایس او پی یا پالیسی پی سی بی نے اختیار کی۔کیا یہ پیشکش پرائیویٹ لیگ مالکان یا ای سی بی نے دی تھی اور کیا اس کے لیے مارکیٹ کا جائزہ لیا گیا تھا تاکہ قیمت کا تعین کیا جاتا یا پاکستانی ملکیت کا مفاد یا پاکستانی کمپنیوں کے مفاد کو خاطر میں رکھا گیا؟پی سی بی کو چاہیئے کہ وہ اس عمل کی مکمل تفصیلات اور اس میں شامل افراد/کمیٹیوں ، جو اس فیصلے کے حق میں شامل رہے ، ان کی تفصیلات منظر عام پر لائے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پی سی بی کی اپنی 45ویں بی او جی کے منٹس آف میٹنگ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ کوئی ایسا کام نہیں کیا جائے گا جو پی ایس ایل یا پی سی بی کے حق میں نہ ہو، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پی سی بی کو اس بات کا علم تھا کہ اس ایونٹ کو ای سی بی کی کچھ معاونت حاصل ہے، لیکن اس کے باوجود اس نے اس وقت تک اس کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا جب تک اس سے پی ایس ایل یا پی سی بی کو فائدہ نہ ہو، لیکن پھر پی ایس ایل فرنچائز کے لیگ میں شامل ہونے پر پی سی بی نے اس لیگ کی حمایت کا فیصلہ کیوں کیا؟کیا پی سی بی اسٹیک ہولڈرز کے ان مخصوص تحفظات بشمول پی ایس ایل فرنچائز مالکان سے رابطہ کاری کی تفصیلات سامنے لائے گا۔ 

اس نمائندے نے متعدد مرتبہ ایس ایم ایس اور فون کالز کے ذریعے پی سی بی کا موقف جاننے کی کوشش کی ۔پی سی بی اعلامیے میں بالآخر اس غیر شفاف معاہدے پر کچھ روشنی ڈالی گئی ہے۔

پی سی بی نے دعویٰ کیا کہ وہ پہلے بھی مختلف لیگز میں کھلاڑی بھیجتارہا ہے، تاہم ایسا سرکاری لیگز میں ہوتا تھا جس کی ملکیت اس ملک کی سرکاری کرکٹ بورڈ کے پاس ہوتی تھی اور ایسا پرائیویٹ لیگز میں نہیں ہوتا تھا،جیسا کہ یہاں ہوا۔

جس معیار پر کھلاڑیوں کو پی سی بی نے حقوق دیئے ،خاص طور پر پرائیویٹ لیگ کے حوالے سے اس کی نظیر نہیں ملتی اور اس طرح پاکستانی اثاثوں کو مروجہ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر اور ان کی مارکیٹ ویلیو جانے بغیر وہاں بھیج دیا گیا، جب کہ یہ کام دوسروں کے ساتھ شفاف طریقہ کار کے ذریعے بھی کیا جاسکتا تھا۔

نوٹ: یہ خبر 8 دسمبر کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی ہے۔

مزید خبریں :