18 جنوری ، 2018
قصور: پولیس نے زینب قتل کیس میں گرفتار ملزم کی نشاندہی پر قصور سے ایک اور مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا۔
قصور میں 7 سالہ کمسن لڑکی زینب کو زیادتی کا نشانہ کر قتل کیا گیا جس کی لاش 9 جنوری کو ضلع قصور میں ہی کچرا کنڈی سے ملی۔
قصور واقعے کےخلاف اگلے روز سے ہی شہر میں ہنگامے اور پرتشدد احتجاج پھوٹ پڑے جب کہ اس دوران پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد بھی جاں بحق ہوئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے واقعے کا نوٹس لے رکھا ہے لیکن پولیس اب تک ملزم کو پکڑنے میں ناکام ہے۔
جیونیوز کے مطابق پولیس نے گرفتار ملزم عمر کی نشاندہی پر ایک اور مشتبہ شخص کو حراست میں لے لیا ہے جس کا نام رانجھا بتایا گیا ہے۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے جانے والے شخص کا گھر اس جگہ سے کچھ فاصلے پر ہے جہاں سے زینب کی لاش ملی۔
ذرائع نے بتایا کہ پہلے سے گرفتار مشتبہ ملزم عمر کو لاہور کے علاقے بھٹہ چوک سے گرفتار کیا گیا تھا، ملزم کا پولی گرافی اور ڈی این اے ٹیسٹ ہو چکا ہے لیکن ٹیسٹ کی رپورٹس بھی اب تک نہیں آ سکی ہیں۔
ذرائع کے مطابق پولیس نے 15 سے زائد مشکوک افراد حراست میں لے رکھا ہے اور اب تک 449 افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں لیکن کیس میں کوئی خاص پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔
دوسری جانب ڈی پی او قصور نے زینب واقعے پر انسانی حقوق کمیٹی کو پیشرفت رپورٹ پیش کردی جس میں بتایا گیا ہےکہ سی سی ٹی وی کیمروں کی مددسے اغوا کے مقام کی نشاندہی ہوئی، ویڈیو کوواضح کروانے کی کوشش کی گئی لیکن ویڈیو دھندلی ہونے سے مثبت نتائج نہ نکلے۔
ڈی پی او قصور نے کمیٹی کو بتایا کہ بینک، بیکری اور دیگر اسٹورز کے کیمروں سے ویڈیو لی جاتی ہیں، تاہم اب شہر کے لیے 450 کیمروں کی منظور ہوئی ہے۔
ڈی پی او کا کہنا تھا کہ ملزم کے خدوخال اور کرائم پیٹرن کا جائزہ لیا گیا، اس نوعیت کے واقعات اور پوسٹ مارٹم رپورٹس کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
واضح رہےکہ واقعے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے ڈی پی او قصور ذوالفقار احمد کو عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا جس کے بعد زاہد نواز مروت ڈی پی او قصور تعینات کر دیئے گئے۔