31 جنوری ، 2018
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے شاہزیب قتل کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے مقدمے کی میرٹ کو نہیں دیکھنا بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ آیا یہ مقدمہ دہشت گردی کا ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے شاہزیب قتل کی سماعت کی جس کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کے تمام فریقین اور ان کے وکلاء کو سامنے لایا جائے۔
ملزمان کے وکیل بابراعوان عدالت میں موجود نہیں تھے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں آگاہ کر دیں کہ ہم آج ہی کیس کی سماعت کریں گے۔
سول سوسائٹی کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ شاہزیب قتل کیس کے مقدمے سے دہشت گردی کی دفعات ختم کر دی گئی ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کسی اور عدالت کے فیصلوں غیر آئینی قرار دے سکتی ہے، جس پر سول سوسائٹی کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ لارجر کے علاوہ تمام بینچوں کے فیصلوں پر نظر ثانی کر سکتی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ دہشت گردی کی تعریف پر مختلف عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں جب کہ چیف جسٹس سول سوسائٹی کے وکیل سے تفصیل کے ساتھ اس حوالے سے سوالات پوچھے کہ کیا سول سوسائٹی کو اپیل دائر کرنے کا اختیار ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تیسرا فریق کو مقدمے میں متاثر نہیں ہے وہ کس طرح سے درخواست دائر کر سکتا ہے، اگر ہم نے آئین کے آرٹیکل 185 کی حدود و قیود کو بڑھا دیا تو ہر کوئی آئے گا اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا جس سے ایک پنڈورا باکس کھل جائے گا۔
شاہ جتوئی کے وکیل جسٹس لطیف کھوسہ نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ یہ مقدمہ قابل سماعت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ کیس کا ایک ملزم جیل میں ہے۔
جسٹس کھوسہ نے ازراہ مذاق کہا کہ کیا بابراعوان جیل میں چلے گئے ہیں، میں سمجھا کہ آپ بابر اعوان کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔
کیس پر مزید سماعت کل دوپہر ایک بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔