بلاگ
Time 08 فروری ، 2018

زینب اور اسماء قتل کیس کی سیاست

فائل فوٹو—۔

ملک میں پچھلے ایک ماہ کے دوران دو افسوسناک کیس سامنے آئے، قصور میں زینب سے زیادتی اور قتل جبکہ مردان میں اسماء کا زیادتی کی کوشش کے دوران قتل، چھوٹی بچیوں کے ساتھ ہونے والے یہ ایسے واقعات تھے کہ ہر آنکھ میں آنسو نظر آئے۔

یہ دونوں کیس جس طرح عام لوگوں میں زیر بحث رہے، سیاستدانوں نے بھی انہیں اپنی سیاست چمکانے کا ذریعہ سمجھتے ہوئے ایک دوسرے پر خوب الزامات لگائے۔ پنجاب کے وزیرقانون رانا ثناء اللہ نے کھل کر خیبرپختونخوا پولیس اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ عمران خان نے پنجاب حکومت اور وہاں کی پولیس کو آڑھے ہاتھوں لیا اور خیبرپختون خوا کی پولیس کو پروفیشنل پولیس قرار دیا۔

رانا ثناءاللہ کا کہنا تھا کہ مردان میں اسماء کے گھر کے قریب رہنے والا ملزم آزاد پھرتا رہا اور کے پی کے پولیس انجان بنی رہی۔

دیکھا جائے تو قصور کی زینب اور مردان کی اسما ء کے قتل کی وارداتوں میں بہت مماثلت ہے اور یہ کیس کسی طرح سے بھی ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہیں ۔

ان کیسوں کا تقابلی جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ دونوں کو حل کرنے اور ملزمان کو پکڑنے میں پولیس بری طرح ناکام رہی۔ اگر پنجاب میں فرانزک سائنس ایجنسی نہ ہوتی تو شاید درندہ صفت مجرمان وارداتیں کرکے کھلے عام دندناتے پھرتے ۔ دنیا بھر میں "جائے وقوعہ" یعنی وہ جگہ جہاں واردات ہوئی ، اسے محفوظ کرکے فرانزک سائنس کی مدد سے کیسز حل کرنے میں کامیابی کے امکانات سو فیصد ہو گئے ہیں ، جس سے جرائم پیشہ افراد ثبوت نا ہونے کے باعث بچ نکلنے کے راستے تقریباً ختم ہو گئے ہیں ۔

پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کی بناء پر اپنے آپ کو بڑا بھائی کہتا ہے۔ بڑے بھائیوں کو چھوٹوں کا خیال تو رکھنا ہی پڑتا ہے،اگر دیگر صوبوں میں فرانزک ایجنسی کی سہولت موجود نہیں ہے تو حکومت پنجاب کو سیاسی فائدہ اٹھانے اور احسان جتانے کے بجائے بھرپور تعاون کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر ممکن مدد فراہم کرنی چاہئے۔

قصور میں زینب قتل کیس کے ملزم عمران علی نے زینب سے پہلے بھی سات بچیوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ لیکن پنجاب پولیس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجرم کو پکڑنے میں ناکام رہی پھر بھیخادم پنجاب کی جانب سے انہیں تالیوں کا تحفہ دیا گیا۔ اسی طرح خیبر پختون پولیس نے بھی ملزم کو اسی طرح تلاش کیا جیسے پنجاب میں زینب قتل کیس کے ملزم کو تلاش کیا گیا اور وہاں بھی پولیس کی روایتی سستی کے باوجود حکمرانوں نے اس کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔

میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ اپنے علاقے کے تھانے جانے اور کسی بھی مشکل میں مدد حاصل کرنا آسان سمجھتے ہیں؟ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ اگر آپ کسی گمشدگی کی رپورٹ کرنے علاقے کے تھانے جائیں تو پولیس آپ سے یہ نہیں کہتی کہ پہلے آپ خود تلاش کریں اور ابھی دیگر جگہوں پر ڈھونڈ لیں ، اگر بچہ گم ہو جائے تو کہتے ہیں کہ کسی رشتہ دار یا محلے دار کے گھر پر معلوم کریں، اور اسی طر ح دو یا تین دن نکل جاتے ہیں اور مسئلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ 

پولیس کی مدد سے مایوس ہونے کے بعد اگر آپ علاقے کے انچارج اے ایس پی سے لے کر ڈی آئی جی تک جائیں اور آپ کو خوش قسمتی کہ صاحب دفتر میں مل بھی جائیں تو وہ بہت احسان کرتے ہوئے آپ کو تھانیدار کے نام پرچی لکھ دیتے ہیں کہ وہ قانون کےمطابق آپ کا معاملہ دیکھ لیں ۔ اور قانون تھانیدار کے گھر کی لونڈی جو ٹھہری کہ وہ آپ کو قانون کی ایسی ایسی شقیں دکھائے گا کہ الامان و الحفیظ۔ آپ توبہ توبہ کرتے ہوئے بھاگنے میں ہی عافیت جانیں گے۔

قصور میں زینب قتل کیس کا معاملہ بھی پولیس نے روایتی طور پر نمٹانا چاہا لیکن میڈیا نے جب اس معاملے کو اٹھایا تو پولیس متحرک ہوگئی ۔ اس گھناؤنے جرم کا ملزم زینب کے گھر سے قریب سو گز دور رہتا تھا اور وہ نہایت ڈھٹائی سے زینب کے قاتلوں کو پکڑنے کے لئے ہونے والے احتجاج میں بھی شامل رہا۔ درندہ صفت انسان معصوم زینب کے جنازے میں بھی شریک ہوا ۔ وہ اسی محلے میں پھرتا رہا حتی کہ اپنا حلیہ تبدیل کرکے زینب کے ایک قریبی رشتہ دار کے گھر بھی بیٹھا رہا، لیکن پولیس خواب خرگوش کے مزے لیتی رہی۔ 

عوام نے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تو سوئے ہوئے عوام کے محافظوں کی آنکھ کھل گئی اور انہوں نے غصہ میں آ کر غریب لوگوں پر براہ راست فائرنگ کر کے کئی کو قتل اور زخمی کر ڈالا اور حکومت کے سامنے سر خرو قرار پائے۔ وقت گزرتا گیا اور پولیس نے روایتی تفتیش جاری رکھی۔ ملزم محلے میں دھڑلے سے گھومتا پھرتا رہا اور اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج لوگ بے بسی سے دیکھتے رہے۔ ملزم کو پولیس نے ایک بار پکڑا بھی لیا لیکن وہ اتنے بھولے تھے کہ محلے والوں کی باتوں میں آکر اس درندے کو چھوڑ دیا ۔ زینب کے کسی عزیز رشتہ دار کو بھی اس پر شبہ نہیں ہوا ۔ بلا آخر ملزم کا ڈی این اے شناخت ہو گیا اور وہ پکڑا گیا۔

مردان کی معصوم اسماء کی ساتھ بھی اسی انداز میں وحشیانہ ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اس درندگی کا ملزم بھی رشتہ دار نکلا جو ان کے گھر کے نزدیک رہتا ہے۔ لیکن کسی کو اس پر شبہ نہیں ہوا اور پولیس اسی بناء پر لا علم رہی اور روایتی انداز میں کام کرتی رہی ۔ اس کیس میں بھی ملزم اسی محلے میں پھرتا رہا اور مقتولہ بچی کے گھر بھی آتا جاتا رہا لیکن مسئلہ حل ہوا تو فرانزک سائنس کے ذریعے جب ملزم کا ڈی این اے میچ کرگیا اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔

پولیس کے قابو میں آتے ہی اس ملزم نے قصور کے عمران علی کی طرح واردات کی کہانی فر فر سنادی۔ فرق تھا تو بس یہ کہ زینب کے قاتل کا یہ پہلا جرم نہیں تھا وہ اس سے پہلے سات ننھی کلیوں کو اپنے ہاتھوں سے مسل کر چکا تھا۔

اس قسم کے معاملات میں پوائنٹ اسکورنگ یا سیاست چمکانا اور اپنی نا اہلی پر شرمندہ ہونے کے بجائے دوسروں پر کیچڑ اچھالنا بلکل ایسا ہی ہے جیسے آپ اپنا گھر گندگی سے بھرا ہوا ہو اور آپ دوسروں کے گھروں کی گندگی کا شور مچاتے رہیں۔ ایسے نازک اور حساس معاملات میں ایک دوسرے کی دل سے مدد کرنی چاہیے نا کہ الزامات کی سیاست اور مرنے والوں کے لواحقین کے زخموں پر مرہم رکھنے کہ بجائے اسے مزید کریدنا۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔