Time 27 فروری ، 2018
بلاگ

نوازی یا شہبازی؟

سیاست میں شدت آتی ہے تواس میں بھی فرقہ بازی شروع ہو جاتی ہے۔ آج کل سیاسی منظر نامے پر دو مخالف مکاتب فکر کا چرچا ہے، ایک کو ہم نوازی مکتب فکر کہہ لیتے ہیں جبکہ دوسرے کا نام شہبازی مکتب فکر رکھ لیتے ہیں۔ نوازی فرقہ کہتاکہ ان کا سیاسی بیانیہ بہت مقبول ہوگیا ہے۔ 

لودھراں ضمنی انتخاب اسی بیانیے نے جتوایا کیونکہ یہی سیٹ (ن) لیگ 40 ہزار ووٹوں کے فرق سے ہاری ہوئی تھی، دوسری طرف شہبازی فرقہ کہتا ہے کہ یہ سارا کمال ترقیاتی پالیسی کا ہے، ترقیاتی پالیسی نے لوگوں کی سوچ بدل دی ہے اور وہ دھرنوں سے تنگ ہیں، ملک کو ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ دو مختلف بیانیے رکھنے والے یہ سیاسی فرقے آگے جا کر اکٹھے ہو جائیں گے یا جب سیاسی حدت بڑھے گی تو ان کے فاصلے مزید بڑھ جائیں گے؟

شہبازی فرقہ خود کو عملیت پرست کہتا ہے اور اس کی سوچ ہے کہ نوازی فرقے کا مزاحمتی بیانیہ سب کو مروا دے گا، شہبازی سوچ یہ ہے کہ تھوڑے ہی عرصے میں فیصلے آجائیں گے، نوازی فرقہ کو سزائیں ملیں گی، قید میں جانا پڑے گا اور یوں نُونیوں کے لئے مسائل بڑھتے جائیں گے۔

شہبازی کہتے ہیں کہ بھٹو نے 1977ء میں بڑے بڑے جلسے کئے، لاہور میں شاندار استقبال ہوا مگر اس کا نتیجہ الٹ نکلا۔ مقبولیت بڑھنے سے مخالفت بھی بڑھ جاتی ہے۔ 1979ء کے بلدیاتی انتخابات بھی پیپلز پارٹی نے جیت لئے تھے مگر چن چن کر سب عوام دوست امیدواروں کو نااہل قرار دے دیا گیا، شہبازی فرقہ کہتا ہے کہ سزائوں سے پہلے پہلے مصالحت کا وقت ہے، مصلحت سے کام لیتے ہوئے کوئی راستہ نکالا جائے۔ شہبازی کہتے ہیں کہ اب بھی ایسے راستے موجود ہیں جن سے آگ پر پانی ڈالا جاسکتا ہے اور عزت بچائی جاسکتی ہے۔

نوازی بھی کسی سے کم نہیں وہ مصلحت، مصالحت اور راستہ نکالنے کی اصطلاحوں سے بہت آگے جا کر اصولوں کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں، انہیں اندازہ ہے کہ اب فیصلوں اور سزاؤں کا دور شروع ہونے والا ہے جس میں ان کی مشکلات بڑھیں گی۔ نوازی مگر کچھ اور بھی بہت منفرد رائے رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جس دن سزا ہوگی اور نوازی لیڈر جیل میں جائے گا ترقیاتی بیانیہ پس پشت چلا جائے گا، پھر نونیوں اور انصافیوں میں صرف سیاسی بیانیے کی جنگ ہوگی اور یہی الیکشن کا نعرہ بھی ہوگا۔

نوازی انتظار کررہے ہیں کہ ادھر فیصلے آئیں اور ایسے میں اگر شہبازی اقتدار میں بیٹھے ہوں تو ان کی سیاسی اخلاقی پوزیشن کا جنازہ نکل جائے گا، نوازی کہتے ہیں کہ شہبازی مکتب فکر کی اقتداری سوچ اس دن چیلنج ہوگی جب نوازی لیڈر جیل میں جائے گا۔

نوازی اور شہبازی، سوچ اور طرز عمل کو کچھ لوگ عم زادوں کی لڑائی بھی قرار دے رہے ہیں۔ چکری چوہدری ہو، عباسی دیول شریفوی ہو، بڑا شہبازی ہو یا چھوٹے شہبازی سب ہی جاتی امرا کی بیٹی کو بڑا لیڈر نہیں مانتے اور نہ ہی اس کے مزاحمتی بیانیے سےمتفق ہیں۔

کچھ سمجھتے ہیں کہ جاتی امرا کی بیٹی کو علم ہے کہ اس کا مزاحمتی بیانیہ اسے نوازی وارث بنا رہا ہے جبکہ مصالحانہ بیانیہ اقتدار تک تو پہنچا سکتا ہے سیاست میں مقبول نہیں ہوسکتا۔ 

تجزیہ نگار کہتے ہیں فیصلہ کن لمحے قریب آرہے ہیں اگر فرقہ شہبازیہ نے اعلانیہ بغاوت نہ کی تو حمزہ و سلیمان کی سیاسی وراثت کا حال وہی ہوگا جو بڑے چودھری صاحب اور چھوٹے چودھری صاحب کی اولاد کے درمیان اختلاف پر ہوا تھا۔ سیاسی وارث بہرحال مونس الٰہی بنا ہے کیونکہ وہ جیل میں رہا اور سختیاں برداشت کیں، میرے محبوب سالک اور شافع حسین پیچھے رہ گئے اگر علم بغاوت بلند نہ ہوا تو پھرمریم ہی لیڈر ہوگی اور باقی عم زاد اس کی پیروی یا اختلاف کرنے کے لئے آزاد ہوں گے۔ 

حمزہ شریف بہت باصلاحیت ہے، دونوں فرقوں میں ہم آہنگی لاسکتا ہے مگر جوں جوں تاخیر ہورہی ہے اتنا ہی یہ کام مشکل ہوتا جائے گا۔ چادر میں دو چار سوراخ تو رفوگری سے بھر جاتے ہیں چادر پھٹ جائے تو بہترین پیوند بھی اس کی اصل حالت بحال نہیں کرسکتے۔

نوازی فرقہ مزاحمتی بیانیے سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہے، اس کا خیال ہے کہ جیل جانے سے کہانی ختم نہیں بلکہ شروع ہوگی کیونکہ جیل جاتے ہی ہمدردی کے ووٹ بڑھیں گے، ہر روز جیل کی کہانی پر خبر بنا کرے گی، کسی نہ کسی چوک میں نون لیگ کی خواتین ماتم کیاکریں گی، کوئی نہ کوئی احتجاجی ٹولی بسوں کو پتھر مارا کرے گی اور یوں سیاسی میدان میں مزاحمتی ارتعاش پیدا ہوگا جو وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جائے گا۔ 

نوازی مکتب فکر بین الاقوامی صورتحال کا تجزیہ بھی کرتا رہتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ امریکہ سے مکمل تعاون کیا جارہا ہے لیکن پھر بھی امریکہ موجودہ پالیسیوں سے شدید ناراض ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک کا سیاسی بندوبست، غیر سیاسی ہاتھوں میں نہیں جارہا۔ 

اگر بین الاقوامی صورتحال مختلف ہوتی تو شاید اب تک اسمبلیاں گھر جاچکی ہوتیں۔ نوازی مکتب فکر میں ماضی کا احساس جرم بھی کہیں نہ کہیں چھپا بیٹھا ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں ڈیل کے ذریعے جدہ جلاوطنی کہیں نہ کہیں ضمیر کو کچوکے تو لگاتی ہوگی اسی لئے نوازی اب مزاحمت چاہتے ہیں مصالحت نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر وہ اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوگئے تو تاریخ کا رخ موڑ دیں گے اور اگر ناکام بھی رہے تو کم از کم تاریخ انہیں اچھے لفظوں سے یاد تو رکھے گی۔

مذہب سیاست کے فرقہ شہبازی کی سوچ عملی ہے وہ آئیڈیلزم کو خوابوں کی سیاست قرار دے کر اس سے اجتناب کررہے ہیں، اس فرقے کا خیال ہے اگر ہم بچ رہے تو ہماری سیاست بھی بچ جائے گی اور اگر نوازی یا شہبازی لیڈر ہی نہ بچے تو ان کی سیاست کیا بچے گی؟ 

شہبازی فرقہ چاہتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح معاملہ قومی اسمبلی کے لئے کاغذات نامزدگی جمع کروانے تک پہنچ جائے، پھر معاملات بہتر سے بہتر ہوتے جائیں گے۔ شہبازی سمجھتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں گردن جھکا کر طوفان کو گزرنے دینا چاہئے اور جب طوفان کی رفتار کم ہو تو پھر سے گردن باہر نکال لی جائے۔ نوازی اس نقطہ نظر سے متفق نہیں وہ کہتے ہیں کہ طوفان میںایک بار گردن جھکالیں تو پھر ہر طوفان گردن جھکانے پر تل جاتا ہے۔

نوازی فرقہ اور شہبازی فرقہ، دونوں اپنی اپنی پگڈنڈیوں پر رواں دواں ہیں، ماضی میں بھی کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اچھا سپاہی اور برا سپاہی بن کر سیاست میں راہ نکالی گئی۔ کیا اس بار بھی ایسا ہی ہورہا ہے؟ یہ صحیح ہے کہ دونوں فرقوں کے لیڈر عم زاد ہیں مل کر اجتماعی فائدے کا راستہ نکال لیتے ہیں لیکن اب پلوں سے بہت سا پانی بہہ چکا، اب یہ فرقے باہم متصادم بھی ہوسکتے ہیں الگ الگ بھی ہوسکتے ہیں اور ایک دوسرے میں ضم بھی ہوسکتےہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب ان دونوں فرقوں کے بیانیوں کا امتحان شروع ہوگا پھر کون کہاں کھڑا رہے گا؟ غورسے دیکھتے رہیں!!

سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کالم 27 فروری کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔