03 فروری ، 2012
اسلام آباد…وزیر خارجہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے کہا ہے کہ اگر پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے پر اعتماد کے ساتھ ملک کر کام کریں تو وہ آگے جاسکتے ہیں، قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی۔ایک امریکی میگزین کو انٹرویومیں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کو مسلسل پیغام دیا ہے کہ ہم افغانستان کی ہر وہ مدد کرنا چاہتے ہیں جو افغان اپنی بہتری کے لئے محسوس کرتے ہیں، وہ اپنی راہ متعین کریں اور ہم اس میں تعاون کے لئے ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے پر اثر ڈالنے اور مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ یہ پیغام جائے کہ کیاپاکستان کے لئے اہم ہے اور کیا افغانستان کے لئے اہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں یہ بالکل واضح کردوں کہ میرے دورے کا مقصد افغانستان کو اعتماد دینا تھا کہ افغانستان اپنے لئے کون سا راستہ اختیار کرسکتا ہے، وہ یہ جان سکتا ہے کہ پاکستان اس کے پیچھے ہے اور یہ انتہائی اہم پیغام ہے۔ وزیر خارجہ کا کہناتھا کہ ایک پر امن افغانستان ہی پاکستان کی خواہش ہے، افغانستان کے مسئلے کا حل واشنگٹن، لندن، پیرس، جرمنی یا اسلام آباد میں نہیں کابل میں ہے، ہم ہر اس بات کے حامی ہیں جو افغانستان کیلئے بہتر ہو۔ اگر افغانستان قطر آپشن اختیار کرنا چاہتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان اس کی حمایت نہ کرے، اس بارے میں ہمارا نکتہ نظرواضح ہے۔ پاک امریکا تعلقات کے سوال پر حنا ربانی کھر نے کہا کہ یہ کہنا غیر منصفانہ ہوگا کہ پاکستانی رہنما امریکا مخالف جذبات بھڑکا رہے ہیں، لیکن اگر پاکستان کی پارلیمنٹ اس نکتہ پر ایک آواز ہوجاتی ہے تو امریکی یہ ذہن میں رکھیں کہ عوام کی خواہش کا خیال رکھا جائیگا۔ پارلیمانی کمیٹی پاک امریکا تعلقات کا جائزہ لے رہی ہے جو حقیقت پسندانہ ہوگا،کچھ لوگ اسے محاذ آرائی سمجھتے ہیں مگر میرا یہ خیال نہیں ہے، میں سمجھتی ہوں کہ یہ دونوں ملکوں کے تعلقات کے لئے اچھا ہے اور یہ ہمارے قومی مفاد میں بھی ہے۔ امریکا کی جانب سے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں تعاون پر وزیر خارجہ نے کہا کہ اس کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے گی کہ یہ وقت کسی علاقے میں فوجی آپریشن کا ہے یا نہیں ؟ماضی میں ہم کئی مرتبہ فوجی اقدامات کرچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی فوجی اہلکار ایسا نہیں جس نے میرے سامنے کہا ہو کہ وہ ڈرون حملوں کا حامی ہے۔ پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو اس کی حمایت کرتا ہو، ملک کے قومی مفاد کی پارلیمنٹ تشریح کرتی ہے، سیکیورٹی کے مفادات کو فوج واضح کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ملٹری سیاسی قیادت کے ساتھ کام کرے گی، فوج اختیار کے بغیرکارروائی نہیں کرتی۔