09 مارچ ، 2018
پاکستان سپر لیگ کے تینوں ایڈیشنز میں ناکام ہونے والی ٹیم لاہور قلندرز میں دنیا کے نامور کھلاڑی شامل ہونے کے باوجود شکستوں کے اس سلسلے پر شائقین بھی حیران پریشان ہیں۔
پی ایس ایل کے تیسرے ایڈیشن سے قبل لاہور قلندرز کو سپورٹرز کی ایک بڑی حمایت حاصل تھی اور اسے فیورٹ قرار دیا جارہا تھا، شاید اس کی وجہ ٹیم میں کھیلنے والے کھلاڑی نہیں بلکہ گراؤنڈ سے باہر بیٹھا وہ شخص تھا جو اپنے کھلاڑیوں کے چھکے چوکوں اور وکٹیں لینے پر تالیاں بھی بجاتا ہے اور اچھلتے کودتے جشن بھی مناتا ہے۔
لاہور قلندرز کے مالک رانا فواد ٹیم کی مسلسل شکست کے باوجود مستقبل کے لیے پرامید ہیں اور اس بار ایونٹ سے باہر ہونے کی صورت میں اگلی بار جیت پر یقین رکھتے ہیں، ایک کامیاب شخص کی یہی خوبی ہوتی ہے لیکن کامیاب شخص اپنی غلطیوں پر بھی نظر رکھتا ہے اور رانا فواد شاید اس میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔
رانا فواد اور ان کی ٹیم مینجمنٹ سے پہلی غلطی اُس وقت ہوئی جب ٹیم کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جارہا تھا، مینجمنٹ نے کھلاڑیوں کے چناؤ میں بیٹنگ کے شعبے کو نظر انداز کیا جس کا نتیجہ پی ایس ایل میچز میں بیٹنگ لائن کی مسلسل ناکامی کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے۔
بیٹنگ میں صرف سابق کیویز کپتان برینڈن میکولم اور آسٹریلوی بلے باز کرس لین پر انحصار کیا گیا، میکولم تو تمام چھ میچز میں بیٹنگ میں ناکام رہے اور کرس لین ایونٹ شروع ہونے سے پہلے ہی انجری کا شکار ہوکر ٹیم سے باہر ہوگئے۔
ایونٹ کے ابتدائی 6 میچز میں لاہور قلندرز کی مسلسل شکست میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ یہ کہ جب جب گیارہ رکنی ٹیم کا انتخاب کیا گیا، کسی نہ کسی شعبے میں خامی چھوڑ دی گئی۔
لاہور قلندرز کے ساتھ بدقسمتی یہ رہی کہ ان کے دو اہم کھلاڑی ایونٹ میں کھیل نہیں سکے، کیمرون ڈیلپورٹ کو والدہ کے انتقال کی وجہ سے ایونٹ چھوڑ کر جانا پڑا اور کرس لین پہلے ہی زخمی ہوگئے۔ دوسری جانب سری لنکا سے تعلق رکھنے والے انجیلو میتھیوز ٹیم کو جوائن ہی نہ کرسکے جن کی جگہ نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے انٹیون ڈیوچ کو شامل کیا گیا۔
کپتان میکولم کو بیٹسمینوں کی کمی کا شدت سے احساس ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل ناکامیوں کے بعد تیزی سے بیٹسمینوں کو آزماتے چلے گئے لیکن ہر بار آزمائش نے دھوکہ ہی دیا۔
بیٹنگ کے شعبے میں بار بار چھیڑ چھاڑ مسلسل ہار کی وجہ بنی، کپتان برینڈن میکولم کا سنیل نارائن سے کبھی اوپننگ کرانا اور کبھی انہیں نچلی پوزیشن پر کھلانے کا تجربہ بھی ناکام رہا، فخر زمان سے اوپننگ کرانے کا تجربہ کامیاب ہوا تو انہیں نچلے نمبر پر بھیج دیا گیا جس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا۔
بیٹنگ کے شعبے میں لاہور قلندرز کے پاس واحد پاور برینڈن میکولم ہیں لیکن ان کا بلا بھی رنز اگلنے میں اب تک ناکام رہا ہے، عمر اکمل مسلسل 5 میچز میں مایوس کن کارکردگی کی بنا پر چھٹے میچ میں ٹیم سے ڈراپ کردیئے گئے اور آئندہ بھی لگتا ہے کہ وہ بقیہ میچز باہر بیٹھ کر ہی دیکھیں گے۔
اور صرف بیٹنگ ہی نہیں، بولنگ کے شعبے میں بھی لاہور قلندرز ناکام دکھائی دی۔ یاسر شاہ اور سنیل نارائن جیسے جادوگر بولروں کا جادو بھی چل نہ سکا، بنگلا دیش سے تعلق رکھنے والے فاسٹ بولر مستفیض الرحمان واحد سرمایہ تھے جن سے امیدیں وابستہ تھیں لیکن وہ اپنی قومی ذمہ داریاں نبھانے واپس چلے گئے۔ فاسٹ بولر سہیل خان کی کارکردگی بھی اب تک مایوس ہی رہی جب کہ نوجوان شاہین آفریدی بھی ابتدائی میچز میں ناکامی کے بعد توجہ حاصل نہ کرسکے۔
وکٹ کے پیچھے عمر اکمل کو آزمایا گیا، لیکن ان کی ناکامی پر مستفیض الرحمان کی جگہ ٹیم میں شامل ہونے والے پروفیشنل وکٹ کیپر دنیش رامدین کو وکٹ کیپنگ کے لیے بھیجا گیا، لیکن یہ بھی کام نہ آیا۔
لاہور قلندرز کی ناکامی کی ایک پوری داستان ہے، لیکن اس کے باوجود فرنچائز مالک رانا فواد مستقبل میں ایونٹ جیتنے کے لیے مزید محنت کرنے کو تیار ہیں، بلاشبہ رانا فواد کی کوششیں قابل قدر ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ان کی ٹیم ایک دن ضرور جیتے گی، لیکن ساتھ ہی مخلصانہ مشورہ ہے کہ جب کھلاڑیوں کا چناؤ کیا جائے تو تمام شعبوں میں توازن کو برقرار رکھا جائے، صرف ایک دو کھلاڑیوں پر انحصار میچ نہیں جتوا سکتا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔