کہیں عمران خان درویش نہ بن جائیں

عمران خان

یہ بات واضح ہے کہ صرف عمران خان ہی پاکستان میں تبدیلی لا سکتے ہیں اور وہ ضرور 2018 میں وزیراعظم بننے کے چند ماہ بعد ہی پاکستان کو ایک سپر پاور بنا دیں گے۔ عمران خان کی ذات ایک ایسے عزم اور ولولے کی داستان ہے جو جس میدان میں بھی گئی، کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر آئی۔

کرکٹ کھیلی تو ورلڈ کپ جیت لیا، سیاست کی تو ملک کا وہ مقبول ترین سیاستدان بنا جسے روایتی سیاست نہیں آتی۔ عشق کیا تو دنیا بھر کی حسینائیں پیچھے دوڑیں۔ لیکن عمران خان کی یہی کمال حاصل کرنے والی خوبی ہمیں ڈرا رہی ہے۔ آج کل وہ ویسی ہی محنت سے دن رات صوفیت کے اسباق پڑھ رہے ہیں جس محنت سے کبھی باؤلنگ کیا کرتے تھے۔

دھڑکا سا لگا ہوا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ صوفیت میں بھی ایسا کمال پا لیں کہ دنیا ترک کر دیں۔ عمران خان کے بارے میں ہمیں یہ تو علم تھا کہ وہ واہگہ کے ایک صوفی بزرگ کے معتقد تھے۔ پھر انہوں نے گجرات کے ایک بزرگ سے رہنمائی پائی۔ لیکن اب وہ رومی اور ابن عربی کے تصوف کو جس محنت سے خود سمجھ رہے ہیں، ہم دنیا داروں کو اس سے خوف سا آنے لگا ہے۔ ایک سچا صوفی تو ہارون الرشید جیسے بادشاہ کی بادشاہت کو ایک پانی کے پیالے سے کم تر جانتا ہے۔

مولانا رومی کا قصہ مشہور ہے۔ وہ ایک تالاب کے کنارے بیٹھے چند کتابوں کا مطالعہ کر رہے تھے کہ شمس تبریز نامی ایک درویش کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس درویش نے کتابوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا ”یہ کیا ہے؟ “ مولانا روم اس وقت روحانیت سے نا آشنا تھے۔ متکبرانہ انداز میں کہنے لگے کہ ”یہ وہ علم ہے جسے تو نہیں جانتا“۔

شمس تبریز نے کتابیں تالاب میں پھینک دیں۔ مولانا روم غمزدہ ہو کر چلائے ”میرے اتنے قیمتی نسخے ضائع کردیے“۔ شمس تبریز ان کی حالت دیکھ کر مسکرائے اور بولے ”اتنا کیوں گبھرا گئے ہو۔ ابھی نکال دیتا ہوں“۔ یہ کہہ کر انہوں نے تالاب سے کتابیں نکالیں تو وہ خشک تھیں۔ 

مولانا روم نے حیران ہو کر کہا ”یہ کیا ہے؟ “ شمس تبریز نے فرمایا ”یہ وہ علم ہے جسے تو نہیں جانتا“۔ مولانا روم یہ سن کر دھک سے رہ گئے۔ شاہ شمس تبریز سے بیعت ہوئے اور دنیا چھوڑ کر روحانیت کی راہ پر چل نکلے۔

حضرت ابراہیم بن ادہم کا واقعہ بھی یاد آتا ہے۔ وہ بلخ کے بادشاہ تھے۔ ایک رات اپنے محل میں سوئے ہوئے تھے کہ چھت پر کھٹ پٹ کی آوازیں آئیں۔ آواز دے کر پوچھا ”کون ہے اور چھت پر کیا کر رہا ہے؟ “ جواب آیا ”میں ایک مسافر ہوں اور میرا اونٹ گم ہو گیا ہے۔ اسے تلاش کر رہا ہوں“۔ ابراہیم بن ادہم بولے ”"ارے بے وقوف، کیا گھروں کی چھتوں پر اونٹ بھی ملتے ہیں؟ “ جواب آیا ”کبھی خدا بھی شاہی محلات میں ملتا ہے؟ تم ریشمی بستر پر آرام کر رہے ہو اور یہ چاہتے ہو کہ تمہیں خدا مل جائے؟ بے وقوف کون ہے، تم یا میں؟"

یہ سن کر حضرت ابراہیم بن ادہم کی دنیا بدل گئی۔ انہوں نے تخت اپنے بیٹے کو سونپا اور درویشوں کے کپڑے پہن کر جنگل کو نکل گئے۔ حضرت فضیل بن عیاض سے بیعت ہوئے اور روحانیت میں اعلی مقام پایا۔

یہ مثالیں اس لئے دیں کہ واضح ہو جائے کہ جب کوئی دنیا دار بندہ بھی روحانیت میں کمال حاصل کر لے تو دنیا اس کے آگے ہیچ ہو جاتی ہے۔ نہ وہ اپنے مال و دولت کی پروا کرتا ہے، نہ پرتعیش محلات کی، نہ بیوی بچوں کی اور نہ حکمرانی کی۔

عمران خان اب اس راہ کے سالک ہوئے ہیں تو گمان یہی ہے کہ ابن عربی اور مولانا روم کے روحانی رموز سیکھنے میں دن رات ایک کر دیں گے اور روحانیت میں وہ کمال پائیں گے کہ مثال بن جائیں گے۔ وہ وقت آئے گا جب ان کا کارنامہ یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ انہوں نے ایک بے مثال ہسپتال بنایا ہے یا ورلڈ کپ جیتا ہے۔ ان کا نام وارداتِ قلوب کے ضمن میں لیا جائے گا۔ بعید نہیں کہ وہ تارک دنیا ہو کر بنی گالہ کا محل چھوڑ کر مارگلہ کی پہاڑیوں کے کسی غار میں مقیم ہو جائیں اور ریاضت و عبادت میں مشغول ہو جائیں۔ بھلا درویش محلوں میں اور حکومتی ایوانوں میں کہاں رہ پاتے ہیں؟

بخدا اس میں شک نہیں کہ عمران خان جیسا لگن کا سچا اور دھن کا پکا شخص یہ کام کر سکتا ہے۔ ان کا ریکارڈ اس چیز کا گواہ ہے۔ لیکن ڈر اس بات کا ہے کہ اگر ایسا ہوا تو پھر نیا پاکستان کیسے بنے گا؟ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ یہ دعا کریں کہ عمران خان روحانیت میں عروج پا کر ایک راست گو، مستقل مزاج اور عیش و عشرت سے بیزار نیک صوفی بن جائیں یا یہ دعا کریں کہ وہ موجودہ طرز زندگی پر قائم رہیں اور تبدیلی لانے کا نعرہ بلند کرتے رہیں۔

عدنان کاکٹر humsub.com.pk کے مدیر ہیں۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔