22 مارچ ، 2018
وادی مہران تاریخ میں دریائے سندھ کی مناسبت سے جانی جاتی رہی ہے ۔ یہ وہ دھرتی ہے جہاں ہزاروں سال پہلے بھی ہر خاص و عام کے لئے پینے کے صاف پانی کے ساتھ نہانے کے لیے حمام کا انتظام تھا۔ پانی کی غیر معمولی مقدار سندھو سے حاصل کی جاتی تھی۔
عظیم دریائے سندھ یہاں بسنے والوں کو وافر مقدار میں پانی فراہم کرتا تھا ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے کے بعد سندھ کے عوام زندگی خوشیوں سے بھر جانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ لیکن ان پر حکومت کرنے والے بادشاہ صفت حکمرانوں کا عوام کے خون پسینے کی کمائی اپنے خزانے میں منتقل کرنے سے دل بھرے تو وہ ان کی فکر کریں۔
پانی کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ کہتے ہیں کہ انسان بھوک برداشت کر سکتا ہے لیکن پیاس جان لیوا ہوتی ہے۔ اسی لیے پانی کو انسان کی بنیادی اور لازمی ضرورت کہا جاتا ہے۔
یوں تو سندھ حکومت عوام کی خدمت کے بے سرو پا بلند و بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتی لیکن دیہی سندھ کے واسی موت سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور حکمران شرم و حیا سے میلوں دور بھی پھٹکتے دکھائی نہیں دیتے۔
تھر کے باشندوں نے بارش کے علاوہ صاف پانی دیکھا بھی نہیں ہوگا۔ اور اب تو ظلم کی انتہا ہی ہو گئی ، تھری باشندے وہ پانی پینے پر مجبور ہیں جو شاید جانوروں کے پینے کے قابل بھی نہیں ہے۔
وہ اور ان کے اہل خانہ کی تو کیا بات کی جائے ان کے جانور بھی آلودگی سے پاک امپورٹڈ پانی پیتے ہیں۔ ان کے گھر ، دفتر اور جہاں بھی وہ جائیں مہنگے ترین پانی کے بوتلیں ان کے سامنے سجی ہوتی ہیں۔ جہاں پینے کے لیے ایسا پانی دستیا ب ہو وہاں خوراک کے لیے لوازمات کا ہم عوام تصور بھی نہیں کر سکتے۔ عوامی نمائندوں کے محل نما گھر اور بادشاہوں جیسی عیاش زندگی کا مجھ جیسا دیہاتی انسان خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتا۔
ضلع بدین کی نہروں کی ٹیل میں پانی کی نا ہونے کے سبب ساحلی پٹی کے چھ سوسے زائد دیہات شدید مشکلات سے دوچار ہیں ۔
عوامی نمائندوں کے شاہانہ انداز کے بر خلاف سندھ کے مظلوم عوام پینے لیے صاف شفاف پانی سے بھی محروم ہیں۔ تھر کے باشندوں نے بارش کے علاوہ صاف پانی دیکھا بھی نہیں ہوگا۔ اور اب تو ظلم کی انتہا ہی ہو گئی ، تھری باشندے وہ پانی پینے پر مجبور ہیں جو شاید جانوروں کے پینے کے قابل بھی نہیں ہے۔ عوام کے مقدر میں حکمران طبقہ کی من گھڑت کہانیاں ہیں اور ان کو صاف پانی دیکھنا بھی نصیب نہیں ۔ حکمرانوں کو کیا فکر اگر ضلع بدین کے 600 سے زائد دیہات پینے کے پانی سے محروم ہیں ۔ وہ کیا جانیں کہ یہاں کے لوگوں کی زندگی کا دار ومدار زمین میں کیے ایک گڑھے میں جمع گندگی سے بھرپور آلودہ اور بدبودار پانی پر ہے۔
اور یہ سندھ کا کوئی ایسا دور افتادہ علاقہ بھی نہیں جسے کہاجائے کہ آمدورفت ناممکن ہو اور اگر ایسا بھی ہو تو ان لوگوں کے لیے راستے بنانا کس کی ذمہ داری ہے؟
ضلع بدین کی نہروں کی ٹیل میں پانی کی نا ہونے کے سبب ساحلی پٹی کے چھ سوسے زائد دیہات شدید مشکلات سے دوچار ہیں ۔ وہ پینے کا پانی ناپید اور یہاں کے بسنے والوں کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت کھودے گڑھے کے مضر صحت پانی کے استعمال پر مجبور ہیں۔
ضلع بدین میں خیر پور گمبوہ ملکانی شریف پنگریو مٹھی تھری احمد راجو سمیت بھگڑا میمن سیرانی بیڈمی روپا ماڑی سمیت ساحلی پٹی کے پر واقع دیہات اور ضلع ہیڈ کوارٹر بدین کڑیو گہنور کھورواہ ترائی سمیت درجنوں چھوٹے بڑے شہر اور قصبات میں پینے کے پانی کی قلت نے سنگین صورتحال اختیار کر رکھی ہے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ نہروں کے آخری سروں پر پانی کی بوند تک نہیں پہنچ پاتی ۔ جس کے نتیجے میں سینکڑوں دیہات میں بسنے والوں کو پینے کے پانی کے حصول میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔
آلودگی کے باعث زیر زمین پانی کے ذخائر بھی ناقابل استعمال ہونے کے سبب صور ت حال سنگین ہے۔ زیرو پوائنٹ سمیت مختلف علاقوں کے دیہاتیوں نے گڑھے کھود رکھے ہیں جن سے حاصل ہونے والا مضر صحت پانی ان کی مجبوری ہےجس سے ان علاقوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ قلت آب کے خلاف بدین گولارچی کھورواہ میں احتجاجی مظاہرےبھی جاری ہیں اور کھورواہ شہر میں مکمل ہڑتال بھی کی گئی ہے۔
علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ عوامی نمائندوں اور حکومتی ارکان کی ملی بھگت سے ان کے حصے کا پانی اس علاقے کے بااثر زمینداروں کو فراہم کیا جا رہا ہے اور اس کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والے طاقتور اشرافیہ کے خلاف کارروائی کرنے والا کوئی نہیں۔