نگران وزیراعظم کسے ہونا چاہیے؟

— فوٹو:فائل

سنہ 2018 کے انتخابات سر پر آئے کھڑے ہیں، قوم شدید اضطراب کی حالت میں ہے کہ نگران وزیراعظم کون ہوگا۔

کہیں کوئی ایسا شخص نہ ہو جو دباؤ میں آ جاتا ہو جس کی امانت، دیانت اور صداقت مشکوک ہو، جو اپنی من پسند پارٹی کو جتوانے کے لئے ڈنڈی مار دے۔ پھر یہ بھی مسئلہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اپوزیشن اور حکومت کسی ایسے شخص کے نام پر متفق نہ ہو پائیں جسے دونوں غیر جانبدار اور جمہوریت دوست سمجھتے ہوں۔

کوِئی پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق چیرمین سینٹ رضا ربانی کا نام لے رہا ہے، تو کوئی سینئر سیاستدان فخر امام کو موقعہ دینے کا مشورہ دے رہا ہے۔ کچھ لوگوں کی خواہش ہے کہ سابق گورنر اسٹیٹ بینک عشرت حسین کو بنایا جائے حالانکہ عشرت حسین کی جمہوریت کی بقاء کے لیے خدمات کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔

مگر مجھے حیرت ہے کہ حکومت، اپوزیشن علی احمد کرد سے کیوں درخواست نہیں کر رہے کہ وہ وزیراعظم بن جائیں؟ ویسے تو علی احمد کرد کا مزاج اپوزیشن والا ہے اور وہ حق کی خاطر بڑے سے بڑے طاقتور آمر کی حمایت کے بجائے اس سے ٹکرانا پسند کرتے ہیں۔

خواہ اس اپوزیشن کی جو قیمت بھی انہیں چکانی پڑے وہ چکا دیتے ہیں لیکن وہ وزیراعظم کی کرسی پر وہ جچیں گے بہت۔ 

علی احمد کرد صاحب نہ تو بک سکتے ہیں اور نہ ہی جھک سکتے ہیں، اور انقلابی ایسے زبردست ہیں کہ ظالم استعمار میسر نہ آ پائے تو خود ہی سے لڑ جائیں۔

آپ کو یاد ہو گا کہ جس وقت اساطیری چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری اکیلے تھے، ان کے مقابل ڈکٹیٹر مشرف اپنی پوری قوت سے کھڑا تھا اور کہیں کوئی ایسا شخص دکھائی نہیں دے رہا تھا جو چیف جسٹس کو انصاف دلائے۔

— فائل فوٹو

اس وقت علی احمد کرد نامی یہ منحنی سا وکیل نمودار ہوا اور اس نے وکلا کی سیاہ فوج کی ایسی قیادت کی جو تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ چھے چھے پولیس والے ان کو اٹھا کر جلسے سے دور لے جانے کی کوشش کر رہے ہوتے تھے اور یہ ان کی گود میں لٹکے لٹکے بھی عوام سے اپنا خطاب جاری رکھتے تھے۔

سر جھٹک جھٹک کر، زلفیں لہرا لہرا کر، بازو اچھال اچھال کر اس بطل حریت نے ایسی دلیرانہ تقریریں کیں کہ طاقتور ڈکٹیٹر کا تاج و تخت ہی اچھال دیا۔

لیکن ہمیں یقین ہے کہ اپوزیشن والے مزاج کا ہونے کے باوجود ملک و قوم جس طرح حسب معمول تاریخ کے ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے کرد صاحب یہ قربانی دینے کو تیار ہو جائیں گے۔

تصور کریں کہ انتخابات کا اعلان کرنے میں ہچر مچر کی جا رہی ہو، کہیں حلقہ بندیوں کی آڑ لی جا رہی ہو کہیں مردم شماری کی اور کہیں وصول نہ کیے جانے والے خیالی اثاثہ جات کی، ایسے میں نگران وزیراعظم اپنی کرسی سے اٹھتا ہے، سیدھا ڈی چوک پہنچتا ہے، اور ادھر ایسی تقریر کرتا ہے کہ تمام جمہوریت دشمن قوتیں سہم سہم جائیں۔ بلکہ اس حد تک پریشر میں آ جائیں کہ تاخیر تو دور کی بات ہے، الٹا قبل از وقت انتخابات ہی کرانے پر تیار ہو جائیں۔

ہیں بھی وہ بلوچستان کے، تو جو پارٹیاں صرف بلوچستان کے سیاست دانوں کو ووٹ ڈالتی ہیں وہ بھی ان پر راضی ہو جائیں گی۔

ویسے تو علی احمد کرد صاحب سے بڑھ کر کوئی دوسرا شخص نگران وزارت عظمی کا حق ادا نہیں کر پائے گا لیکن کسی وجہ سے ان کے نام پر اتفاق نہ ہو پائے تو پھر چند متبادل نام بھی دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

جسٹس وجیہہ الدین احمد صاحب کا نام بھی مناسب ہے، وہ ڈکٹیٹر کے غلام نہیں بنے اور ایماندار ایسے ہیں کہ انتخابی دھاندلی کے خلاف جدوجہد کرنے والی اپنی پارٹی کے اندرونی انتخابات میں سے بھی دھاندلی برآمد کر ڈالی۔

وہ وزیراعظم ہوں گے تو مجال ہے کہ کہیں دھاندلی ہو جائے۔ یہ دونوں حضرات قانون سے بھی خوب واقف ہیں اور کوئی قانون کے نام پر ان سے داؤ پیچ کھیلنے کی کوشش کرے تو اسے بھی خاطر خواہ جواب دے دیں گے۔

نگران وزیراعظم کے لئے ہمارے ذہن میں تو یہی شخصیات آ رہی ہیں۔ باطل سے ٹکرانے والے علی احمد کرد اور دھاندلی پکڑنے کے ماہر وجیہہ الدین احمد ۔ 

اگر مقتدر سیاسی و غیر سیاسی حلقوں کو یہ نام پسند نہیں تو پھر ہم ورلڈ بینک پر بھی نظر ڈال لیں گے کہ آج کل کون سا پاکستانی ادھر اعلی عہدے پر فائز ہے جسے وزارت عظمی کے لئے درآمد کیا جانا عظیم تر ملکی مفاد کی بجا آوری اور قوم کی امنگوں کی ترجمانی کے لئے بہتر ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔