سپریم کورٹ نے نواز شریف، مریم کی تقاریر پر پابندی کی خبر بے بنیاد قرار دے دی

سپریم کورٹ آف پاکستان۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد:  سپریم کورٹ نے نواز شریف اور مریم نواز کی عدلیہ مخالف تقاریر سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر لیا گیا ازخود نوٹس نمٹا دیا۔

چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے لاہور ہائیکورٹ کے گزشتہ روز فیصلے پر لیے گئے از خود نوٹس کی سماعت کی، اس موقع پر قائم مقام چیئرمین پیمرا اور اٹارنی جنرل عدالت کے روبرو پیش ہوئے تاہم نواز شریف اور مریم نواز کے وکلا پیش نہیں ہوئے۔  

عدالت نے لاہور ہائیکورٹ کے آرڈر کی غلط رپورٹنگ پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل عدالتی آرڈر پڑھیں اور دکھائیں کہ فیصلے میں پابندی کہاں لکھا ہے۔ 

عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل نے لاہور ہائیکورٹ کا آرڈر پڑھتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ نے عدلیہ اور ججز کے خلاف تقاریر کا پیمرا کو روکنے کا حکم جاری کیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صحت مندانہ تقریر اور تنقید سے کبھی نہیں روکا، خبر کو ٹوئسٹ کر کے چلایا گیا، اس پر پیمرا نے کیا ایکشن لیا۔

قائم مقام چیئرمین پیمرا نے کہا کہ غلط خبر پر ایکشن لیا ہے اور چینلز کو فوری نوٹس جاری کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایک چینل پر غلطی ہوسکتی ہے لیکن تسلیم نہیں کرسکتا کہ عدالت کے رپورٹر یہ غلط خبر دے سکتے ہیں، اخبارات کی خبریں بے بنیاد اور جھوٹی ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کون اس معاملے کی تحقیقات کرے گا اور کس نے یہ خبر بنا کر میڈیا کو دی جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ خود اس کی تحقیقات کریں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک بار پھر عدلیہ پر حملہ ہوا ہے، جعلی خبر عدلیہ پر حملے کے مترادف ہے، تاثر دیا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر پر پابندی لگانے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جھوٹ بول کر عدلیہ کو بدنام کرنے کا منصوبہ ہے، نواز شریف اور مریم نواز نے جو تقریر کرنی ہے عدالت میں آکر کریں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ روز عدلیہ کو گالیاں نکالی جاتی ہیں، جس دن آرٹیکل 62 ون ایف کا فیصلہ آیا، خواتین نے عدالت کے دروازے پر آ کر گالیاں دیں، چھان بین کر رہا ہوں کون خواتین کو لایا۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ ' کیا آرٹیکل 19 کی عملداری نہیں ہونی چاہیے'۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے آرٹیکل 19 اور 68 کے تحت پیمرا کو کام کرنے کا حکم دیا، پیمرا نے آج تک آرٹیکل 19 کے تحت کیا کیا ہے اور وہ عرصے سے معاملات کو طول دے رہا ہے۔

قائم مقام چیئرمین پیمرا نے عدالت کو بتایا کہ خلاف ورزیوں پر چینل کو نوٹس جاری کیے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نوٹس ہی کرنے ہیں تو ضرورت کیا ہے، کیا پیمرا کے پاس اختیار نہیں ہے اور کیا پیمرا نے اب تک کوئی ایکشن لیا ہے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے سوال کیا کہ کیا پیمرا کو کوئی آ کر بتائے گا کہ اپنا کام کریں، عدالت نے حکم کچھ دیا اور رپورٹنگ کچھ اور ہوتی رہی۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کسی نے منظم طریقے سے یہ سب کچھ کیا ہے، پیمرا یتیم خانہ لگتا ہے، اٹارنی جنرل آپ کیا چاہتے ہیں نفرت انگیز تقاریر شروع ہوجائیں۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کل شام سے بغیر عدالتی آرڈر پڑھے ڈھول پیٹا جارہا ہے، ہائیکورٹ کے احکامات کو سمجھنے کے لئے کسی انگریزی کے استاد کی خدمات لیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بنیادی حقوق کو کم نہیں کریں گے جب کہ عدالت نے لاہور ہائیکورٹ کے نواز شریف اور مریم نواز کی عدلیہ مخالف تقاریر سے متعلق فیصلے پر لیے گئے ازخود نوٹس کو نمٹا دیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ نے پیمرا کو  عدلیہ مخالف تقاریر کی درخواستوں کو نمٹانے کاحکم دیا، عدالتی حکم میں نواز شریف اور مریم نواز کی تقاریر پر پابندی کا حکم نہیں دیا گیا، اخبارات میں شائع خبریں بے بنیاد اور جھوٹی ہیں۔

چیف جسٹس پیمرا کے وکیل پر برہم

چیف جسٹس نے پیمرا کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو نوٹس جاری کریں گے اور لائسنس معطل کرتے ہیں، آپ کس طرح پیمرا کی طرف سے پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کا پیمرا کی طرف سے پیش ہونا مفادات کا ٹکراؤ نہیں جس پر وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ پیمرا کی طرف سے کافی عرصے سے پیش ہورہا ہوں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا (ن) لیگ کی طرف سے بھی آپ پیش ہوئے، ٹی وی پر آپ کمنٹس کرتے ہیں جس پر وکیل نے کہا کہ عدالت سے معافی چاہتا ہوں اور اپنا وکالت نامہ واپس لے لیتا ہوں۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر 16 لیگی رہنماؤں کی عدلیہ مخالف تقاریر کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کی تھی۔

عدالت نے اپنے حکم میں پیمرا کو حکم دیا تھا کہ وہ یقینی بنائے کہ 15 دن کے دوران توہین عدالت پر مبنی کوئی مواد ٹی وی چینلز پر نشر نہ ہو، عدالت نے پیمرا کو 15 روز میں رپورٹ بھی جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

مزید خبریں :