17 اپریل ، 2018
کڑا احتساب جاری ہے، سابق وزیراعظم نواز شریف ’تاحیات‘ نااہل ہوچکے اور ان کے ساتھی لائن میں لگے ہیں، اب کس کے حصے میں کیا سزا آتی ہے، یہ تو قابل احترام عدالتیں ہی فیصلہ کریں گی۔
مخالفین خوش تھے اور ہیں لیکن ان کی خوشی بھی عارضی ثابت ہونے کو ہے۔
’دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے، سجناں وی مرجاناں‘ کے مصداق سب کی باری آنے کو ہے، مذہب کے لبادے میں لپٹے ڈکٹیٹر کی منتخب نمائندوں پر آرٹیکل 62 ون ایف اور 63 کی لٹکائی تلوار اب ہر ووٹ لینے والے کی گردن پر گرے گی۔ اسلامی اقدار و تعلیمات سے خاطر خواہ لاعلمی اور فرائض سے روگردانی، گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونا، اخلاقی اقدار کی خلاف وزری اور اچھے کردار کا حامل نہ ہونا اب آپ سب کی تاحیات نااہلی کا سبب بنے گا۔
بہتر ہوگا کہ 2018 کے عام انتخابات کی تیاریوں اور ووٹ لینے کے لئے نکلنے سے پہلے اپنا حساب کتاب ابھی سے کرنا شروع کردیں، ورنہ عدالت تو کہیں بھی لگائی جاسکتی ہے۔
بات ہو رہی ہے بڑے میاں صاحب کی نااہلی کی، ہمارے ہاں بہت بحث ہوچکی کہ میاں صاحب اپنے کئے پر پہلے کتنی مرتبہ پچھتا چکے ہیں، وہ اقتدار میں رہ کر کیا کچھ کرتے ہیں اور اقتدار چھنتا ہے تو کیسے پچھتاتے ہیں اور یہی ان کی حاصل وصولی بھی ہوتا ہے، سو اب بھی صورت حال یہی ہے لیکن کیا اب مزید پچھتائوں کی گنجائش ہے؟
شاید نہیں، شاید کسی کے لئے بھی نہیں۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ موجودہ سیاسی ابتری کی صورت حال میں ایک آئیڈیل اور سنہری موقع ضرور ہے اور وہ ہے عوام کے ساتھ کمٹمنٹ اور سچ بولنے کا؟
عوام کو حیرت ہے کہ اقتدار میں رہتے ہوئے آپ سب کچھ بھول جاتے ہیں، اقتدار چھوٹتے ہی عوام کے بہی خواہ بن جاتے ہیں، اقتدار میں ہوتے ہیں تو آپ امیر سے امیر تر اور ووٹر بیچارے غریب سے غریب تر ہوجاتے ہیں، اقتدار میں ہوں تو آپ کے بچے سب کچھ حاصل کرلیتے ہیں لیکن آپ سے محبت کرنے والوں کے بچے تعلیم سمیت بنیادی سہولتوں سے بھی محروم رہتے ہیں۔
آپ خود یہاں کے حکمران ہوتے ہیں لیکن مال و دولت اور اثاثے بیرون ملک ہوتے ہیں، سیاست یہاں کرتےہیں لیکن نگہبانی کسی اور کے مفادات کی کرتے ہیں۔ اب ایسامزید چلنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آرہا ہے۔
قارئین کرام ،حالیہ فیصلوں سے سب کچھ ٹھیک ہوجانے کی پیدا ہونے والی سوچ کچھ زیادہ ہی خوش کن ہے اور میرے لئے بھی خوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اب وقت کا دھارا بدل رہا ہے، قوم باشعور ہورہی ہے، سیاسی اور سماجی رویے اور تقاضے بدل رہے ہیں لہٰذا اب سیاست اور اقتدار کے معیار بھی بدلنے چاہئیں۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے کیسز کی تیزرفتار سماعت اور ایکشن سے بھرپور فیصلوں کو جوڈیشل ایکٹوازم کا نام دیا جا رہا ہے، یہ منظر تو آپ سب نے جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں بھی دیکھا تھا لیکن آپ ہی میں سے زیادہ تر نے اس کو درست اور وقت کی ضرورت قرار دے کر ساتھ بھی دیا تھا، تو اب غلط کیسے ہورہا ہے؟
بات رویوں اور مفادات کی ہے لیکن رویوں کی مفادات کے ہاتھوں محتاجی ختم ہونی چاہئے، البتہ یہ لازم امر ہےکہ احتساب کا دائرہ کار محدود ہونے کی بجائے وسیع تر ہونا چاہئے اور سب کے لئے یکساں ہونا چاہئے۔
موجودہ سیاسی حالات، حبس کا شکار ہیں، تازہ ہوا کا جھونکا ہے کہ آکر ہی نہیں دیتا۔ احتساب اور کیسز سے بچنے اور صادق و امین بننے کے لئے جوق درجوق ’پیروں‘ کی پارٹی میں شامل ہونا کا عمل جاری ہے۔
اس مرتبہ کمال یہ ہے کہ پہلے احتساب اقتدار سے نکلنے کے بعد ہوتا تھا اب کی بار حکومت میں ہوتے ہوئے حکمرانوں کا احتساب شروع کیا گیا اتنی بے بسی تو پہلے کبھی نہ تھی۔
اب تو لگتا ہے کہ چھوٹے بھائی نے بات نہ مانی تو مشکل میں پھنس جائیں گے اور کئی وفاقی و صوبائی وزرا بھی ایسے شکنجے میں آجائیں گے کہ انتخاب بھی نہیں لڑسکیں گے؟ باخبر حلقوں کا اصرار ہے کہ کیا برا ہو رہا ہے اور کس کے ساتھ ہو رہا ہے آج تو سب اقتدار میں ہیں اور خود کو اتنا طاقتور سمجھتے ہیں کہ قانون بھی ان سے ڈرتا ہے، تاہم اب کی بار قانون ان کو ڈرائےگا۔
کچھ بااختیار کہتے ہیں کہ بےلاگ احتساب کا اگلا راؤنڈ بھی بہت سخت اور خطرناک ہوگا، تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی قیادت اور اہم ارکان کےخلاف بھی کارروائیوں کی تیاریاں کی جارہی ہیں، شاید معلق پارلیمنٹ کے لیے یہ سب کچھ ضروری اور لازم ہے۔
ادھرسیاسی سطح پر خدشات کی فضا میں انتخابات سے پہلے سیاسی انجینئرنگ کے الزامات کا سلسلہ بھی تیز ہوچکا ہے، کہا جا رہا ہے کہ اس عمل کا دائرہ چاروں صوبوں تک پھیلایا جا رہا ہے، ن لیگ کے مشرف دور میں جتنے حصے ہوئے اب اس سے زیادہ تقسیم کی جائے گی۔
نئے دھڑے اور نئے محاذ سمیت نئی جماعتوں کی بنیاد موثر انتخابی حکمت عملی کا حصہ لگتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اپنی صفوں میں اپنے دشمن تلاش کرنے کی ضرورت ہے، اطلاع ہے کہ نگران وزیراعظم اور صوبائی وزراء اعلیٰ کے لئے الگ پینل تشکیل دیا جاچکا ہے۔
وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں عدم اتفاق کی صورت میں الیکشن کمیشن سے اس کا باقاعدہ اعلان ہوگا، ممکنہ طور پر نگران وزیراعظم فاٹا سے لیا جاسکتا ہے۔
احتساب کے جاری عمل میں وقت لگے گا لہٰذا عام انتخابات کے انعقاد میں کچھ مہینوں کے لئے تاخیر بھی ہوسکتی ہے۔ اسی اثنا میں کچھ بڑے فیصلے بھی سامنے آئیں گے، ایسے میں قومی افق پر چیئرمین سینیٹ کی طرح کی ایک نئی قیادت بھی ابھر سکتی ہے۔
ہماری سیاسی روایت رہی ہے کہ جب اپنے کئے کی سزا بھگتنے کا وقت آتا ہے تو اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا الزام ملکی اداروں پر لگانا شروع کردیتے ہیں۔ اب اس مذموم سوچ کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہئے، پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ عالمی حالات اور اندرونی سلامتی کے معاملات کے تناظر میں مسلح افواج کئی قسم کے چیلنج کا سامنا کررہی ہیں، انہیں کسی بھی قسم کی سیاسی صورت حال میں گھسیٹنا، قطعاً حب الوطنی نہیں۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ فوج کا کام کسی کی سیاست بچانا نہیں محض ریاست بچانا ہے لہٰذا اس ذہنی اختراع کا اب خاتمہ ہونا چاہئے۔ فوج مضبوط ہوگی تو دفاع مضبوط ہوگا، ایک مضبوط اور پرعزم فوج ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے ساتھ دشمن کےدل پر بھی بھاری ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہم اپنے ماضی کے ساتھ ساتھ حال سے بھی سبق نہیں سیکھتے جس کی وجہ سے قوم میں بھی مایوسی پھیلتی ہے، شاید اس مرتبہ ہمارے سیاسی اکابرین اپنے مخالفین کے راستوں میں کانٹے بچھانے کی روایت کو بدلنے پر آمادہ ہوجائیں اور اپنے آج کے مفاد کی خاطر قوم کے مستقبل کو دائو پر لگانے سے باز آجائیں۔کیونکہ آج جو کچھ کسی ایک کے ساتھ ہو رہاہے وہ کل باقی سب کے ساتھ بھی ضرور ہوگا۔ بقول فراز؎
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔
فراز اپنی جگر کاویوں پہ ناز نہ کر
کہ یہ متاع ہنر بھی سدا کسی کی نہیں
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔