پاکستان

بین الاقوامی گروہوں کا اہلیانِ کراچی سے بھتہ وصولی کا انکشاف

مختلف ملکوں میں سرگرم جرائم پیشہ گروہوں نے گذشتہ 5 سالوں کے دوران کراچی کے 31 ڈاکٹرز اور 68 تاجروں سمیت 108 شہریوں سے بھتہ وصول لینے کے لیے فون کیے۔

پاکستان یہ معاملہ بین الاقوامی فورم پر اٹھائے گا۔ سندھ پولیس کے شعبہ انسداد دہشت گردی نے اس سلسلے میں اب تک گزشتہ پانچ سال کا ریکارڈ یکجا کرلیا ہے اور کام جاری ہے۔

حکام کے مطابق بھتے کی وصولی، دھمکیوں اور معاملات طے کرنے کی فون کالز جنوبی افریقہ، افغانستان، یورپ، دبئی، تائیوان، تھائی لینڈ اور دیگر ممالک سے کی گئیں،۔

آج تک اس سلسلے میں کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی، اب پاکستانی ادارے بین الاقوامی اداروں سے اپنے شہریوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر سوالات بھی اٹھائیں گے۔

اس حوالے سے سندھ پولیس کے انسداد دہشت گردی کا شعبہ غیر معمولی فعال کردار ادا کررہا ہے۔

کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ سندھ کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی ثناء اللہ عباسی نے جیو نیوز کو بتایا کہ سال 2013 سے اب تک کراچی کے 108 تاجروں اور ڈاکٹرز سے بھتہ وصول کرنے کیلئے فون کالز مختلف ملکوں سے کی گئیں۔

ثناء اللہ عباسی نے بتایا کہ اس وقت تک دستیاب شواہد کے مطابق بھتہ وصولی کیلئے جنوبی افریقہ کے گروہوں نے 36 شہریوں کو فون کرکے دہشت زدہ کیا۔

ان کے مطابق بھتہ کیلئے دوسرے نمبر پر افغانستان کے گروہ ہیں جنہوں نے اس عرصے میں 24 شہریوں سے بھتہ وصولی کیلئے افغانستان سے کالز کیں۔

اعداد و شمار کے مطابق سال 2013 میں 31 وارداتوں میں بیرون ملک کے گروہوں نے بھتہ وصول کیا گیا۔

سال 2014 کے دوران 30 شہریوں کو بیرون ملک سے بھتہ کیلئے فون کیے گئے۔ بھتہ وصولی کے بین القوامی گروہ نے سال 2015 میں کراچی میں 25 وارداتیں کیں۔ سال 2016 میں 13 وارداتیں کی گئیں۔

کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں سے دہشتگردوں کا نیٹ ورک ٹوٹنے کی بنا پر سال 2017 میں یہ سلسلہ کم ہوا اور محض 6 وارداتوں ہوئیں۔

ایڈیشنل آئی جی ڈاکٹر ثناء اللہ عباسی کے مطابق کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہونے کے باوجود رواں سال بھی یہ سلسلہ رکا نہیں اور اب تک 3 شہریوں کو مختلف ممالک سے بھتہ کی کالیں آئی ہیں۔

دستاویزات کے مطابق 9 جنوری 2018 کو کراچی کے ایک تاجر سکندر قاسم کو یورپ کے ملک نیدرلینڈ سے کال کرکے بھتہ طلب کیا گیا۔

آٹھ فروری 2018 کو ایک اور تاجر آصف مجید کو افغانستان سے بھتہ کی طلبی کی کال آئی۔ 4 اپریل 2018 کو کراچی کے تاجر مشرف بھتہ مانگنے والے نے تھائی لینڈ کے ایک شہر سے کال کی۔

دستاویزات کے مطابق سال 2017 میں کراچی کے تاجر سید کاشف حسن، علی رضا، محمد عرفان، شارق ظفر، شاکر خان اور فیضان کو بھتہ کیلئے بین القوامی فون کالز آئیں۔

سال 2016 کے دوران سری چند، محمد کامران، محمد عادل، خوب چند، سید جعفر زیدی، عرفان یعقوب، محمد سراج، ڈاکٹر دلیپ کمار، محمد خالق قریشی، محمد حسین، شعور ترابی، ڈاکٹر کوثر رحمان اور زائر محمد کو بھتہ کی بین الاقوامی کالز آئیں۔

سال 2015 میں کاشف دانیال، کامران عمر، جگدیش کمار، ڈاکٹر خادم قریشی، ڈاکٹر زاہد انصاری، محمد اقبال، صادق، غلام حبیب جدون، عمرخان، محمد عبداللہ خالد، ڈاکٹر اقبال وحید، ڈاکٹر عبد الرزاق، میجر ریٹائرڈ طارق ندیم، ڈاکٹر جمشید اختر، جاوید سبغت اللہ مہر، ڈاکٹر درشن لعل، محمد صدیق، ڈاکٹر بہارالدین، ڈاکٹر عبید احمد، ڈاکٹر سہیل احمد، عبدالمتین خان، ڈاکٹر عمران شوکت، ڈاکٹر محمد فاروق خان، ڈاکٹر سید نسیم احمد اور ڈاکٹر موہن لعل کو بیرون ملک سے فون کرکے بھتہ مانگا گیا۔

رپورٹ کے مطابق سال 2014 کےدوران بین القوامی گروہوں کا نشانہ بننے والوں میں پروفیسر ڈاکٹر شاہد عظیم مرزا، ڈاکٹر عظیم، ڈاکٹر فرحان جمیل قریشی، ڈاکٹر محمد نوید علی، ڈاکٹر سید منور علی، ڈاکٹر سید فرید اختر، ثروت عمران، شیخ تنویر احمد، شیر افضل، ڈاکٹر امجد اقبال، حسن علی عبداللہ، مرزا صابر علی، ندیم حنیف، محمد ندیم، کامل شاہ، ڈاکٹر نعیم سلطان علی، بریگیڈیر ریٹائرڈ ڈاکٹر سٹڈ بسین ایجنڈ، مظاہر حسین، خواجہ طاہر، ڈاکٹر اقبال حسین، طٰہ یاسین، زبیراحمد، چوہدری ظفر اقبال، سید یاور علی عابدی، عبداللہ، امیر نواب، سہیل سلیم، ڈاکٹر فرخندہ قادری، محمد شاہد علی، اور ڈاکٹر عثمان صادق کو بھتہ کیلئے مختلف ملکوں سے فون کالز موصول ہوئیں۔

حکام کے مطابق سال 2013 میں سید نواب حیدر زیدی، محمد ہارون پوٹھی والا، محمد اورنگزیب، ڈاکٹر وسیم الرحمان، ڈاکٹر فصیح اللہ میر، محمد شاہد، اورنگزیب، خورشید علی خان، فضل وہاب، محمد فیصل، سلطان علی رحمانی، جاوید علی غوری۔ خرم ابراہیم، عزت خان، محمد رزاق، ریحان احمد، سید ضیاء الحق انصاری، محمد ریحان، سونیا رزاق، اشتیاق بیگ، محمد عامر، اے پی عمر، شعیب شوکت، مذفل، محمد شعیب، عمیر عباسی، محمد یعقوب سموں، منصور علی، عرفان امان اللہ، وراثت علی اور اختر جعفری شامل ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق بھتہ گروپوں کے مقامی کارندوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کافی گرفتاریاں بھی کیں لیکن مختلف ملکوں میں بیٹھے ہوئے ملزمان کے خلاف وہاں کی حکومتوں کی جانب سے تاحال کوئی کارروائی سامنے نہیں آئی۔

پولیس حکام کے مطابق ان کوششوں کا مقصد بھی آئندہ ایسے واقعات پر قابو پانا اور ایسے گروہوں کو ریکارڈ پر لانا ہے۔

مزید خبریں :