18 مئی ، 2018
متحدہ مجلس عمل نے 2018 کے انتخابات کے لیے اپنی سیاسی مہم کا آغاز مردان سے کرتے ہوئے خیبر پختونخواہ کے دوسرے بڑے شہر میں پہلے عوامی جلسے کا انعقاد کیا۔ یہ واضح ہے کہ مذہبی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل ایم ایم اے، انتخابات کے معرکے میں پہلا قدم خیبر پختونخواہ سے اٹھائے گی، جو مذہبی طور پر ایک قدامت پسند صوبہ ہے۔
ایم ایم اے کے وجود کو ختم ہوئے 10 سال بیت گئے لیکن اس کی رکن پانچوں جماعتیں اب بھی اپنے اپنے علاقوں میں اثر و رسوخ رکھتی ہیں اور اپنے ووٹ بینک کو برقرار رکھے ہوئے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آنے والے انتخابات میں کامیابی ان کا نصیب ہوگی؟
گزشتہ برس نومبر میں یہ طے پایا تھا کہ ایم ایم اے کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا، لیکن اندرونی کشیدگیوں کو دور کرتے اور عہدیداروں کا انتخاب کرتے کرتے چار مہینے لگ گئے۔ توقعات کے عین مطابق مولانا فضل الرحمان صدر اور لیاقت بلوچ سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ یہ بھی قدرتی سی بات تھی کہ صدر کا عہدہ اتحاد میں موجود سب سے بڑی پارٹی یعنی جے یو آئی (ف) کے ہاتھ آئے اور سیکریٹری جنرل کے عہدے کے لیے دوسری بڑی جماعت یعنی جماعت اسلامی کو چنا جائے۔
باقی 3 جماعتوں میں پروفیسر ساجد میر کی مرکزی جمعیت اہلِ حدیث، اویس نورانی کی جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) اور علامہ ساجد نقوی کی تحریکِ اسلامی شامل ہیں۔ اس طرح ایم ایم اے میں دیوبندی، بریلوی، اہلِ تشیع اور اہلِ حدیث مسلکوں کی نمائندگی ہے۔
مولانا سمیع الحق کی جمعیت علمائے اسلام (س) وہ واحد پارٹی ہے جو 2002 میں ایم ایم اے میں شامل تھی لیکن اب نہیں ہے۔ اپنے پرانے ساتھیوں کی دعوت کو ٹھکرا کر مولانا سمیع الحق نے تحریک انصاف کی طرف رجوع کیا ہے۔ ممکن ہے کہ آنے والے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اور جے یو آئی (س) کا الحاق ہو جائے۔
البتہ حالیہ سینیٹ الیکشن میں مولانا سمیع الحق کو اُس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب انہیں تحریک انصاف کے ممبران کے ووٹ نہیں ملے اور وہ سینیٹر بننے میں ناکام ہوگئے۔ جے یو آئی (س) کی ساکھ ووٹرز میں کمزور ہے۔ ایسی صورتحال میں مولانا سمیع الحق کا تحریک انصاف سے قریبی تعلق رکھنا عقلمندی کا فیصلہ ہے۔ ان کے مدرسے دارالعلوم حقانیہ کو تحریک انصاف کی حکومت سے بھاری بھرکم فنڈز بھی ملے ہیں، یہ الگ بات کہ ایسا کرنے پر عمران خان کو خاصی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یاد رہے کہ بہت سے پاکستانی اور افغان طالبان اسی مدرسے کے طالبعلم رہ چکے ہیں۔
2002 میں منظرعام پر آنے والی ایم ایم اے نے اُس سال انتخابات میں 60 نشستیں حاصل کیں۔ اس طرح خیبرپختونخوا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے طور پر اُبھرنے والی ایم ایم اے نے صوبے میں اپنی حکومت قائم کی۔ بلوچستان کی اتحادی حکومت میں بھی اس کا حصہ باقی اتحادیوں سے قدرے بڑا تھا، مگر 5 سال میں مذہبی جماعتوں کا اتحاد پھیکا پڑ گیا۔ جماعت اسلامی کی جانب سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بعد ایم ایم اے میں سے جان نکل گئی اور ان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
آج بھی یہی لگتا ہے کہ ایم ایم اے 2002 والی کامیابی پھر حاصل نہیں کر پائے گی، جب ان کو 11 فیصد ووٹ مل گئے تھے۔ اس تاریخی جیت کی وجوہات میں نائن الیون کے بعد امریکا کا افغانستان پر حملہ اور مذہبی ووٹ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا شامل تھا۔
لیکن اب صورتحال بہت مختلف ہے اور مذہبی اور دائیں بازو کے ووٹ کے لیے میدان میں نہ صرف مسلم لیگ (ن) بلکہ تحریک انصاف بھی منتظر ہیں۔ 2 اور مذہبی جماعتیں بھی ابھر کر سامنے آئی ہیں جن میں خادم حسین رضوی کی تحریک لبیک اور حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ شامل ہیں۔ اہل سنت و الجماعت اور مجلس وحدت المسلمین بھی سنی اور شیعہ ووٹ کو توڑنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ امر بھی اپنا کردار ادا کرے گا کہ ایم ایم اے حکومت کے 5 سالوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھتے رہے ہیں۔
سیاسی پنڈٹ کہتے ہیں کہ ان سب باتوں کا آنے والے الیکشن پر اثر پڑے گا اور ایم ایم اے کا حصہ بننے والی جماعتوں کو شاید اگلے کچھ ہفتوں میں مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اب صورتحال کس کروٹ بیٹھے گی، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔