30 مئی ، 2018
ہم بھی کیا عجیب قوم ہیں، کسی حال میں خوش نہیں رہتے، بری خبریں آرہی ہوں تو اچھے وقت کی پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں، اچھی خبر آئے تو حیرت کے مارے پریشان ہوجاتے ہیں۔
بےچارے ایوان صدر کے ممنون مکین نے پانچ برسوں میں اگر ابہام میں پڑے عام انتخابات کی حتمی تاریخ پر مہر ثبت کرنے کا کوئی بڑا کام کرہی دیا ہے تو اب ہمیں دل کو تھام کے اس فیصلے پر صدقِ دل سے یقین بھی کرلینا چاہیے کہ اب عام انتخابات 2018ء میں ہی ہوں گے اور وقت پر بھی ہوں گے۔۔؟ اگر اب بھی کسی کو یقین نہیں آرہا ہے تو اس سوچ، ذہنی اختراع اور وہم کا کیا کیا جاسکتا ہے؟ بظاہر انتخابات میں تاخیر کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، ہاں کوئی نئی سازشی تھیوری ضرور گھڑی جاسکتی ہے۔۔!
ہماری سیاسی قیادت کے زیر اثر پوری قوم کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی کام نہ کرنا ہو یا نہ ہو پا رہا ہو تو ناکامی کو قبول کرنے کے بجائے رکاوٹ کا خفیہ ہاتھ تلاش کرنا شروع ضرور کردیتے ہیں۔ پھر پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا بھی اپنا فرض ادا کرنے سے نہیں چوکتا اور وہ بھی کسی اَن دیکھی سازش کے تانے بانے بُن کر کوئی اسٹوری گھڑ ہی لیتا ہے۔
اب یہی منظر ملک کےموجودہ سیاسی اور جمہوری حالات کا ہے۔ پہلے شور تھا کہ سینٹ کے انتخابات نہیں ہوں گے، پھر کہا گیا کہ ہوں گے مگر وقت پر نہیں ہوں گے، پھر اسٹوری آئی کہ ہوگئے تو قابل قبول نہیں ہوں گے، تمام جماعتیں ہنگامہ کردیں گی، لیکن الحمداللہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک 'جمہوری پلان' کے مطابق ہوگیا، باوجود اس کے کہ حقیقت سب کے سامنے آچکی ہے لیکن سب خوش ہیں کہ کم از کم ایک صوبے کی محرومی تو ختم ہوئی، پھر نگراں وزیراعظم کا معاملہ درپیش ہوا تو تب بھی کئی سازشی تھیوریاں چل پڑیں، لیکن بالآخر یہ جنون اور پریشانی بھی ختم ہو ہی گئی۔
مارشل لاء کے بعد 2008 اور پھر 2013ءکے کامیاب انتخابی عمل کے بعد جمہوریت کے تسلسل کا تیسرا مرحلہ 25 جولائی 2018ء کو عام انتخابات کی صورت مکمل ہوگا، جس کا صدارتی حکم جاری ہوچکا ہے۔ نئے انتخابات پر 20 ارب روپے کے اخراجات کا تخمیہ ہے جوملکی تاریخ کے سب سے مہنگے عام انتخابات ہوں گے۔ 2008 میں ایک ارب 85 کروڑ جبکہ 2013 کے انتخابات پر 4 ارب 73 کروڑ روپے کےاخراجات آئے تھے۔
گزشتہ برس ہونے والی نئی مردم شماری میں ہم سب 20 کروڑ سے زائد ہوچکے ہیں، نئی حلقہ بندیاں ہوچکیں تاہم وفاقی اور صوبائی نشستوں میں ابھی تک اضافہ نہیں ہوا۔ قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلیوں کی 849 جنرل نشستوں پر انتخابات ایک ہی روز ہوں گے جس میں قومی اسمبلی کی 272، پنجاب کی 279، سندھ کی 130، خیبرپختونخواہ کی 99 جبکہ بلوچستان کی 51 جنرل نشستیں شامل ہیں۔
نئے انتخابات پر 20 ارب روپے کے اخراجات کا تخمیہ ہے جوملکی تاریخ کے سب سے مہنگے عام انتخابات ہوں گے۔
ایک ہی دن قومی و صوبائی اسمبلیوں کا الیکشن کرانے کا مقصد انتخابی عمل کو شفاف بنانا اور پِری پول دھاندلی سے بچنا ہے، یعنی اگر پہلے قومی اسمبلی کے انتخابات ہوں اور شام تک نتیجہ کسی ایک جماعت کے حق میں آجائے تو لامحالہ اس کا براہ راست اثر اگلے روز کے صوبائی انتخابات پر ہوگا۔ وفاق میں حکومت بنانے والی جماعت کو نہ چاہتے ہوئے بھی صوبوں میں ووٹ پڑ جائیں گے۔
الیکشن کمیشن شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے عالمی اسٹینڈرڈ کے جدید سیکیورٹی فیچرز والے بیلٹ پیپرز بنوا رہا ہے جبکہ فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی مدد کے ساتھ ساتھ غیرملکی مبصرین کو بھی بلایا جارہا ہے، تاہم انتخابی عمل سے قبل ضابطہ اخلاق کےنام پر سیاسی جماعتوں پر کئی قدغنیں لگائی جارہی ہیں جو شاید انتہائی قدم ہے جس سےتمام جماعتوں کو یکساں اور کھل کر مہم سازی میں مسئلہ بھی ہوگا۔
اب جبکہ یہ سب کچھ ہونے جارہا ہے، سیاسی اور ابلاغی حلقے نئی سازشی تھیوریاں گھڑنے سے باز نہیں آرہے۔انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے باوجود ان کے بروقت انعقاد کو مشکوک بنانے کے لیے ایک ہی وقت میں دو ریاستی اداروں اور جولائی میں بے چارے مون سون کے بپھر جانے جیسےالزاماتی اندازے گھڑے جارہے ہیں۔
سب جانتےہیں کہ دو بڑے ریاستی اداروں کے سربراہان جمہوریت پر غیرمتزلزل یقین اور اس کو مضبوط بنانے کا کئی مرتبہ آن ریکارڈ بلکہ قسمیہ اعادہ کرچکے ہیں انتخابات کے بروقت انعقاد پر تو گویا وہ اپنی زبان بھی دے چکے ہیں۔ پھر بھی کہا جا رہا ہےکہ حلقہ بندیوں کے معاملے پر عدالتی جنگ سپریم کورٹ کو عام انتخابات کے التواء کا جواز دے سکتی ہے، حالانکہ قانونی ماہرین کی رائے میں سپریم کورٹ کے پاس قانونی وآئینی طور پر کوئی ایسا جواز نہیں کہ وہ عام انتخابات کو ملتوی کردے جب تک کہ مجموعی حلقوں کی نصف تعداد یعنی 425 حلقہ بندیاں ٹھوس اعتراضات کی بنیاد پر کالعدم قرار نہ دے دی جائیں۔
ایک دوسری سازشی تھیوری یہ گھڑی جارہی ہےکہ سیاسی توڑ پھوڑ کے جاری عمل کی تکمیل اور 'شریفوں' کو 'بدمعاش' قرار دےکر اندر کیے جانے تک انتخابات غیرضروری ایکسرسائز اور مرضی کے نتائج کےحصول میں رکاوٹ ثابت ہوں گے۔دوسری طرف اس غیرمنطقی سوچ اور ہرزہ سرائی کا جواب بھی دیا جا رہا ہےکہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی، پی ایس پی اور کئی ایک چھوٹے گروپوں کو سیاسی طاقت بخشنے کے لیے توانا اور کاریگر افرادی قوت فراہم کردی ہے تو پھر انتخابات کا التواء کیونکر اور کس کے مفاد میں ہوگا، ایسے میں جب سب سیاسی جماعتیں تیار ہیں تو تاخیری حربے سے محض بدنامی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
نواز شریف سیاسی تاریخ کے عہد میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سخت اسٹینڈ لینے والے وہ پہلے سیاستدان ہیں جو بھائی کے اقتدار میں آنے کا خواب بھی چکناچور کرنے سے باز نہیں آرہے۔
دراصل ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ پر بلاجواز الزام تراشی اور انہیں ہر معاملے میں گھیسٹنا سیاسی فیشن بن چکا ہے۔ طاقتوروں کے ہاتھوں تیار ہونے والے سیاسی بت اب ہر تازہ ہوا کے جھونکے سے ڈر جاتے ہیں اور جب بھی نیا منظر نظر آتا ہے تو ان کے اندر کا خوف باہر کے منظر کو خوفناک بنا دیتا ہے۔ یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ عالمی اور اندرونی ملکی حالات کسی طور بھی عام انتخابات کے التواء کی اجازت دے رہے ہیں اور نہ ہی یہ کسی طور اداروں اورقوم کے مفاد میں ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ دراصل 2018 کے عام انتخابات ملکی تاریخ کے سب سے اہم، ٹف اور سیاسی طور پر فیصلہ کن انتخابات ہوں گے۔ یہ انتخابات ہمارے جمہوری سفر کی اگلی منزل کا بھی تعین کردیں گے۔ موجودہ سیاسی منظرنامے میں پریشانی اور واویلے کی بنیاد بھی شاید یہی ہےکہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے لیے تاریخ کا سب سے بڑا سیاسی امتحان آن پہنچا ہے اور شاید تیاری مکمل نہیں۔
لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ شفاف انتخابات کی صورت میں ووٹ کی طاقت رکھنے والے 20 کروڑ عوام اب کی بار سیاسی اداکاروں کا کڑا احتساب بھی ضرور کریں گے۔ ملک کی 70 سالہ سیاسی تاریخی کو دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پرسوار ہو کر 3 مرتبہ وزارت عظمیٰ پانے والے نوازشریف پہلی مرتبہ بانگ دہل اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے پر اتر آئے ہیں۔
نواز شریف سیاسی تاریخ کے عہد میں طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سخت اسٹینڈ لینے والے وہ پہلے سیاستدان ہیں جو بھائی کے اقتدار میں آنے کا خواب بھی چکناچور کرنے سے باز نہیں آرہے۔ ملک میں حکمرانی کے تاج کا فیصلہ کرنے والا پنجاب، اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے پر پرانے میاں صاحب کا ساتھ دیتا ہے کہ بدلے ہوئے شریف کا یہ امتحان بہت کڑا ہے۔ اندازہ لگایا جا رہا ہےکہ ن لیگ کے 15 سے 20 ایلکٹبلز کو انتخابی میدان میں اترنے سے روکنےکی کوششیں جاری ہیں جبکہ 40 سے 50 ارکان پہلے ہی اپنا پنجرہ بدل چکے ہوں گے۔ایسے میں میاں صاحب کے لیے بڑا چیلنج نئے چہروں کا انتخاب اور عوام کا ان پر اندھا اعتماد ہوگا۔۔!
دوسری طرف اینٹی اسٹبلشمنٹ کےنعرے سے وجود میں آنے والی پیپلزپارٹی بلوچستان کی 'محرومی' مٹاکر پوری طرح 'اُن' کی ہوچکی ہے، سندھ کے عوام ان کے ہاتھ کی صفائی سے بھلےکتنے ہی ناراض ہوں، پارٹی کے نظریاتی خاموش کارکن اور قیادت سمیت الیکٹبلز خوش ہیں کہ ان کی 'کارروائیوں' پر طاقتوروں نے فی الحال آنکھیں بندکرلی ہیں، وہ اس غلط فہمی کا بھی شکار ہیں کہ وہ بچ گئے ہیں۔ بہرطور مشکل یہ ہےکہ 'اُن' کے ہوجانے کا زبان سے اقرار شاید اقتدار کا وعدہ بن بھی جائے تو بھی انتخابی امتحان پاس کرنا آسان نہیں، 25جولائی کی شام تک تو ویسے بھی بہت دیر ہوچکی ہوگی۔
ادھر 'ہردل عزیز' اور برسوں کے انتظار کے بعد اندھادھند نوازشات پر مسٹر خان ابھی سے خود کو اقتدارکے جھولے میں بیٹھا محسوس کررہے ہیں۔ ہر ایرےغیرے فصلی بٹیرےکو سینے سے لگا کرخوش ہو رہے ہیں، جیسے وہ نہیں جانتے کہ نئےدوست برے نہیں صرف اچھے وقتوں کے ساتھی ہیں۔
مسٹر خان پہلے امتحان میں تھے یا نہیں لیکن اب ضرور ہیں اور یہی انتخابی معرکہ ان کی سیاسی زندگی کا بڑا امتحان ثابت ہوگا۔ پارٹی کا دیرینہ کارکن، برق رفتاری سے بنی گالہ پہنچ کر گلے میں دو رنگہ پہننے والوں کی خواہشات کی اڑتی دھول میں کہیں گم ہوگیا ہے۔لگتا ہے بیلٹ باکس سے پہلے ٹکٹوں کی تقسیم ہی پارٹی اور خان صاحب کے مستقبل کا تعین کردےگی۔
شایدکلیدی فیصلوں سے پہلے انہیں مڑ کر اپنی زندگی بھر کی جدوجہد کو ایک نظر دیکھنے کا خیال آجائے۔کسی سیانے کا صائب مشورہ ہےکہ عوام کا اعتماد بحال کرن کے لیے لوٹاسازی کی فیکٹری بند کرنےکا سوچا جائے، انتخابی نتائج پر دھاندلی کا راگ روکنےکے لیے جامع قانون سازی کا سوچا جائے اور عوام کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار میں آنے کا موقع دیا جائے۔ اس سے پہلےکہ تاریخ پھر کوئی تلخ فیصلہ لکھے، سیاسی قیادت ملک و قوم کےمفاد میں بہتر اور سمجھدارانہ فیصلےخود کرلے۔۔۔!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔