Time 21 جون ، 2018
پاکستان

پاناما لیکس: راز فاش ہونے کے ڈر سےکئی پاکستانی موکلین نے منصوبے ترک کردیئے تھے


پاناما میں آف شور کمپنیاں بنانے میں مدد دینے والی لاء فرم موزیک فونسیکا کی نئی دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ پاناما لیکس کے بعد موزیک فونسیکا کے موکلین پر خوف اور گھبراہٹ طاری ہوگئی تھی۔ ان میں سے کئی ایک پاکستانی ہیں، جنھوں نے بیرون ممالک دولت چھپانے کے راز فاش ہونے کے خدشے کے پیش نظر اپنے منصوبے ترک کردیے۔

واضح رہے کہ موزیک فونسیکا کی نئی دستاویزات میونخ کی ایک فرم کو ا فشاء کی گئی ہیں، جس نے انہیں انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کے ساتھ شیئر کیا ہے اور 'دی نیوز' آئی سی آئی جے کا پاکستان میں واحد پارٹنر ہے۔

دی نیوز کے سینئر صحافی اور آئی سی آئی جے کے رکن عمر چیمہ کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں پاناما لیکس کے انکشاف کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے ایک سابق سربراہ نے دو سوئس بینکوں میں کھاتے کھولنے کا منصوبہ ترک کر دیا، پاناما پیپرز کے ذریعے ان کی دو بے نامی شیل کمپنیاں سامنے آئی تھیں، لیکن اُن کی ملکیت نامعلوم تھی۔

سابق پی سی بی سربراہ کی پاناما میں قائم یہ دونوں کمپنیاں 'ٹیونڈش انجینئرنگ ایس اے' اور 'جیفلیان انویسٹمنٹ ایس اے' نامعلوم ہی رہتیں اگر تازہ لیکس سامنے نہ آتیں۔ جب ان کمپنیوں نے سوئس بینک میں اکاؤنٹ کھولنا چاہا تو بتایا گیا کہ مالکان میں سابق سربراہ کرکٹ بورڈ، اُن کی اہلیہ اور بیٹا شامل ہیں۔

اس حوالے سے تبصرے کے لیے رابطہ کرنے پر کرکٹ بورڈ کے سابق سربراہ نے کوئی جواب نہیں دیا۔

رپورٹ کے مطابق سابق اٹارنی جنرل جسٹس ریٹائرڈ ملک عبدالقیوم نے بھی خود کو بے نامی کمپنی سے لاتعلق ظاہر کیا، لیکن اُنہوں نے بینک اکاؤنٹ کھولنے سے متعلق اپنا ذہن تبدیل کرلیا، کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ پاناما لیکس کے بعد یہ بات راز نہیں رہے گی۔

رپورٹ کے مطابق ملک قیوم نے دو نامعلوم کمپنیوں 'چیمبر ویل فنانشل' اور 'فرن برج ریسورسز' کی قانونی طور پر نمائندگی کی اور دونوں کو سوئس بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے استعمال کیا گیا، جس پر اُن کی اہلیہ کے دستخط بھی موجود ہیں۔

جب اس حوالے سے مؤقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کیا گیا تو ملک قیوم نے کہا کہ فرن برج ان کی موکل رہی ہے اور وہ اس کے مالک کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ نہیں کر سکتے۔

نئی جاری دستاویزات میں دو خطوط بھی شامل ہیں، جو پامانا پیپرز کے افشاء کے دوسرے روز 6 اپریل 2016ء کو جاری ہوئے، جو فرن برج کے ڈائریکٹرز نے جاری کیے کہ ملک قیوم کمپنی کے قانونی نمائندہ ہیں۔

اس کے علاوہ 14 اپریل 2016 کی تاریخ کے ساتھ دستخط شدہ خط میں فرن برج کے شیئر ہولڈرز اور ڈائریکٹرز نے کمپنی کے مجاز دستخط کنندہ کے طور پر انہیں ہٹائے جانے کی منظوری دی۔ اتفاق سے اس خط پر 13 اپریل کو دستخط کیے گئے اور ملک قیوم نے بھی تصدیق کی کہ وہ کمپنی کے قانونی نمائندہ نہیں رہے۔ واضح رہے کہ فرن برج کے ساتھ ان کے تعلق کا ڈائریکٹرز کی جانب سے ایک خط 27 اگست 2012ء کو جاری ہوا تھا۔

رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی کی والدہ ثمینہ درانی نے پاناما پیپرز کے اجراء کی وجہ سے اپنے بیٹے عاصم اللہ درانی کو کمپنی کی منتقلی میں عجلت کی۔ 'ارمانی ریور' کمپنی اسد کو تحفے میں دی گئی جو برطانیہ میں جائیداد کے مالک ہیں۔ اس کی لاگت اندازاً 10 لاکھ پاؤنڈ اسٹرلنگ بتائی گئی، جس کا ذریعہ ان کے مرحوم والد اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر شاکر اللہ درانی کی جانب سے بچت بتایا گیا۔ ثمینہ درانی کی دو دیگر آف شور کمپنیاں 'اسٹار پریسیشن'اور 'رین بو' ہیں۔

مشرق وسطیٰ میں پاکستانی بینکار سلیم شیخ نے مستقبل میں مزید کسی 'لیک' کے ذریعے پشیمانی اور ہراساں کیے جانے سے بچاؤ کے لیے لاء فرم سے وضاحت مانگی۔ ان کی اس تشویش کا جواب دینے کے بجائے موزیک فونسیکا نے اپریل 2017ء میں برٹش ورجن آئی لینڈز میں کمپنیوں کے مالک پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز سمیت انہیں بھی نوٹس جاری کردیے۔

شریف خاندان کی ملکیت 'نیلسن' اور 'نیسکول' کمپنیز نے 2014ء میں اپنا ایجنٹ تبدیل کیا، اس لیے تازہ انکشافات میں اس سے متعلق کوئی تفصیلات شامل نہیں۔

موزیک فونسیکا کے نئے انکشافات

اپریل 2016ء میں ایک کروڑ 15 لاکھ پاناما پیپرز کے افشاء ہونے کے بعد دسمبر 2017ء تک تازہ لیکس 12 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے۔

موزیک فونسیکا کی اس نئی لیک سے معلوم ہوا ہے کہ اس لاء فرم کو نتائج سے نمٹنے میں کتنی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا۔

نئی لیکس کے مطابق موزیک فونسیکا 2016 میں ہونے والے انکشافات کے نتائج جمع کرنے کی کوشش میں تھی، کمپنی نے اس دوران لیک ہونے والی اپنے موکلوں کی ایک کروڑ سے زائد فائلیں دیکھیں اور مالکان سے پاسپورٹ کاپی، گیس بل اور ریفرنس لیٹر بھی اچانک مانگنا شروع کردیئے، جس پر موکل پریشان ہوگئے کہ کہیں بینیفیشل اونرشپ سے متعلق معلومات تو افشا نہیں ہوگئیں۔

عالمی سطح پر جانچ پڑتال کے سبب کمپنی نے موکلوں سے تعلق کو چھپانے کے لیے اپنا کاروباری نام بھی بدلا، تاہم وہ پاناما میں قائم 10 ہزار 500 میں سے 75 فیصد آف شور کمپنیوں کے مالکان کی شناخت نہ کرسکی۔

اسی طرح برٹش ورجن آئی لینڈ میں سرگرم 28 ہزار 500 کمپنیوں میں سے 70 فیصد کے مالکان کی نشاندہی میں بھی موزیک فونسیکا ناکام رہی۔

یہ بھی یاد رہے کہ موزیک فونسیکا نے رواں سال مارچ میں اپنی بندش کا اعلان کر دیا تھا۔

اس کمپنی نے رواں سال اپریل سے پاکستان میں اپنے رجسٹرڈ موکلین کو چھوڑنا شروع کر دیا تھا جبکہ برٹش ورجن آئی لینڈ نے پاکستان کو کاروبار کے لیے ممنوع قرار دیا تھا۔

پاکستان کے علاوہ جن 20 دیگر ممالک کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے حوالے سے 'ہائی رسک' قرار دیا گیا، ان میں افغانستان، بیلا روس، بوسنیا، وسطی افریقی جمہوریہ، کیوبا، کانگو، اریٹیریا، ایران، عراق، لبنان، لیبیا، شمالی کوریا، سربیا، سیرالیون، صومالیہ، جنوبی سوڈان، سوڈان، شام ، یمن اور زمبابوے شامل ہیں۔

مزید خبریں :