22 جون ، 2018
مئی 2016 میں بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ کے گھر خزانہ نکلا اور نوٹوں سے بھرے 14 بھاری بھرکم بیگ برآمد کیے گئے، اس کے علاوہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے کروڑوں روپے مالیت کا سونا، پرائز بانڈ اور سیونگ سرٹیفیکٹ بھی ملے تھے۔
نوٹ گننے کے لیے نیب حکام کو نوٹ گننے کے لیے مشین منگوانی پڑی تھی کیوں کہ اتنی بڑی رقم کو ہاتھوں سے گننے میں کئی روز لگ سکتے تھے اور غلطی کا امکا ن بھی تھا۔
اس کے باوجود رقم اتنی زیادہ تھی کہ نیب کے اہلکاروں کو 7 گھنٹے سے زائد کا وقت لگا، پاکستانی اور غیر ملکی کرنسی کے ساتھ پرائز بانڈ، سیونگ سرٹیفکیٹس گننے کے لیے اسٹیٹ بینک سے مشینیں بھی منگوائی گئیں۔
پھر کچھ دنوں بعد سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے ایک اور ساتھی کو گرفتار کیا گیا اور سہیل مجید کی نشاندہی پر کوئٹہ کی بیکری سے مزید 57 لاکھ روپے برآمد کیے گئے۔
پھر اگلے مہینے خبر آئی کہ نیب نے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں چھاپا مار کر مشتاق رئیسانی کے ایک درجن بنگلے ضبط کرلیے، اس کے علاوہ بنگلوں میں کھڑی کئی گاڑیاں بھی قبضے میں لے لیں،
اتنی بڑی تعداد میں رقم کی برآمدگی، جائیدادوں کی موجودگی خبروں میں آئی اور بلوچستان کے کئی منصوبے اس کرپشن کی نذر ہوگئے، ان خبروں نے ہلچل مچادی۔
احتساب عدالت کوئٹہ میں مشتاق رئیسانی اور سہیل مجید پر 2 ارب 10 کروڑ روپے کی بدعنوانی کا مقدمہ قائم کیا۔
ان ملزمان کی گرفتاری کو 7 ماہ مکمل نہیں ہوئے تھے کہ کرپشن کی روک تھام کے ادارے نیب نے مشتاق رئیسانی اور سابق مشیر خزانہ خالد لانگو کے فرنٹ مین سہیل مجید کی اربوں روپے کے کرپشن میں پلی بارگین کی درخواست منظور کرلی جس کے تحت مشتاق رئیسانی اور سہیل مجید شاہ 2 ارب روپے سے زائد نیب میں جمع کرانے تھے یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے معروف شاعر دلاور فگار نے کہاتھا۔
"رشوت لے کر پکڑا گیا ہے، رشوت دیکر چھوٹ جا''
وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے عین موقع پر کارروائی کرکے اس گھناؤنے جرم کے مرتکب افراد کو آزاد ہونے سے بچا لیا، مشتاق رئیسانی جیل میں ہے اور سر توڑ کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح ضمانت پر رہا ہو جائے لیکن بلوچستان ہائی کورٹ اس کی دو درخواست کو مسترد کر چکی ہے اور اب مشتاق رئیسانی بیماری کے بہانے ضمانت کر وا نے کی کوششوں میں ہے۔
اس معاملے میں بظاہر نیب کی سست روی دکھائی دیتی ہے اور لگتا یہ ہے کہ نیب اہلکار کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے میں لیت و لال سے کام لے رہے ہیں تاہم نیب ذرائع کے مطابق یہ تاثر درست نہیں ہے، کیس معمول کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے اور اس میں کافی پیشرفت ہوچکی ہے۔
کیس میں مجموعی طور پر استغاثہ کے 90 سے زائد گواہان تھے جن میں سے 60 فیصد سے زائد گواہوں کے بیانات قلمبند کئے جاچکے ہیں اور عدالت استغاثہ کے ان گواہوں کے بیانات کی روشنی میں بھی فیصلہ کرسکتی ہے، تاہم عدالت کی کارروائی سے لگتا یہی ہے کہ تمام گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہونے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیاجائے۔
اس کے علاوہ نیب ذرائع کاکہناتھا کہ کرپشن کے اس بڑے کیس میں تاخیر دفاعی وکلاء کی وجہ سے بھی ہوئی ہے، کبھی ہڑتال کی وجہ سے تو کبھی کسی اور وجہ سے وکلاء عدالت میں پیش نہیں ہوتے رہے جہاں تک پلی بار گین کا تعلق ہے تو یہ نیب قانون میں موجود ہے، اس میں نیب کو مورد الزام ٹہرانا کسی طور درست نہیں ہے۔