پانی کی فراوانی سے بوند بوند کو ترستے بلوچستان تک

پانی گہرائی میں جانے سے زیر زمین موجود پانی کی سینکڑوں سرنگیں بھی خشک ہو چکی ہیں۔ فوٹو: جیو نیوز

بلوچستان کبھی اپنے گہرے نیلے اور صا ف و شفاف پانیوں کی وجہ سے مشہور تھا مگر اب یہ بات قصہ پارینہ بن چکی ہے۔

قدرتی وسائل سے مالامال یہ صوبہ آج پانی کے شدید بحران شکار ہے۔

ماضی میں صوبے کے مختلف اضلاع میں بہتے پانیوں کے چشمے اب تقریبا خشک ہوچکے ہیں جب کہ مغل حکمرانوں کے دور سے جاری صوبہ میں کاریزوں کا قدیم روایتی نظام بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔

ماہرین آب کے مطابق یہ صورتحال وقت گزرنے کے ساتھ مزید گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کے علاوہ صوبے میں خشک سالی اور زیر زمین پانی کی سطح گرنے کے باعث پانی کا بحران ہر نئے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

1993 میں پہلی بار صوبہ میں پانی کی کمی کو محسوس کیا گیا تاہم حکومت نے کوئٹہ میں تو کوہ مردار کے پہاڑ میں بورنگ کر کے ہارڈ راک سے پانی دریافت کر لیا لیکن صوبہ کے دیگر اضلاع میں پانی کی قلت کو نظر انداز کر دیا۔

عوام پانی کی کمی کا شکار ہوتے گئے اور حکومت خواب خرگوش کے مزے لوٹتی رہی، وقت گزرتا گیا اور سال 1998 آگیا۔

اس سال بلوچستان کے ضلع خضدار کی سب تحصیل آرنجی سے شروع ہونے والی خشک سالی نے صوبے کے 22 سے زائد اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے نتیجہ میں صوبے کے اکثر اضلاع سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے پانی کی تلاش میں ہجرت کی۔

لوگوں کے مال مویشی مرتے گئے، عورتیں اور بچے پانی مانگتے رہے اور غریب لوگ جینے کے لیے سخت ترین حالات سے لڑتے رہے۔

حکمران پھر بھی اپنی پُرتعش زندگی میں مگن رہے اور پانی اور صحت کے متلاشی معصوم لوگوں کو طفل تسلیاں دیتے رہے۔

تواتر سے حکومتی ایوانوں پر براجمان ہونے والے حکمران وہی بلند و بانگ دعوے کرتے رہے کہ حالات قابو میں ہیں اور پانی کی فراہمی کو بہتر کر دیا جائے گا تاہم ان علاقوں کے مکین پانی کو ترستے ترستے موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہونے لگے۔

لیکن اشرافیہ اور عوام پر حکومت کرنے والوں کے گھروں میں پانی آتا رہا اور ان کو عوام کی پریشانی پھر بھی نظر نہیں آئی۔

بدقسمتی سے 90 کی دہائی سے شروع ہونے والی خشک سالی اور پانی کے بحران سے صوبے کے حکمرانوں نے کوئی سبق نہ سیکھا اور گزشتہ دو دہائیوں کے دوران صوبے میں پانی کی فراہمی یقینی بنانے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ایک بار پھر بلوچستان کے اکثر اضلاع میں عوام پانی کی تلاش میں سرگرداں ہیں، تھوڑے سے پانی کے لیے اب ان کو مارے مارے پھرنا پڑتا ہے۔

حتیٰ کہ اب تو صوبے میں پینے کے پانی کی چوری کے واقعات بھی رپوٹ ہونا شروع ہو گئے ہیں جیسا کہ گوادر میں کچھ عرصہ قبل ایک گھر سے چور پانی کے چھ جری کین چرا لے گئے۔

گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی کے مطابق صوبہ میں اب بھی پانی کی قلت پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے دنوں میں کوئٹہ سے بھی لوگوں کو پانی کی تلاش میں ہجرت کرنا پڑ سکتی ہے۔

گورنر کے مطابق صوبہ میں ناقص منصوبہ بندی، درختوں کا اندھا دھند کٹاؤ اور سیلابی پانی زخیرہ نہ کرنے کے نتائج کا آج صوبہ بھر کی عوام کو سامنا ہے۔

جیو نیوز کو حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ہر گزرتے برس بارشیں اور برفباری میں کمی آتی گئی۔

1982 میں اوسطاً 19 اعشاریہ 5 انچ ہونے والی بارشیں کم ہوتے ہوتے 2018 میں محض چار انچ تک پہنچ گئیں اور یہی بلوچستان کے عوام کی زندگی میں اندھیرے بکھیرنے کے لیے کافی ہے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی، اعداد و شمار مزید پریشان کن اور ہوش اڑا دینے والی کہانی بیان کر رہے ہیں۔

بارشوں اور برفباری کی کمی سے زیر زمین پانی کی سطح میں ہونے والا اضافہ 67 کیوسک سے کم ہو کر صرف 38 کیوسک رہ گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ صوبہ میں قدرتی پانی کی فراہمی میں 29 کیوسک کی کمی۔ جسے کہتے ہیں کہ "غریبی میں آٹا گیلا ہونا" پانی کے زخائر تو پہلے ہی نہیں تھے رہی سہی کثر زیر زمین پانی کی کمی نے پوری کر دی۔

ماہرین آب کے مطابق بلوچستان کے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں زیر زمین پانی ہرسال 10 فٹ گہرائی میں جا رہا ہے، کچھ علاقوں میں تو بورنگ کے ذریعے پانی نکالنے کے لیے 1500 فٹ سے 3000 فٹ تک گہرائی میں جانا پڑ رہا ہے۔

پانی گہرائی میں جانے سے "کاریزوں" یعنی زیرزمین موجود پانی کی سینکڑوں سرنگیں بھی خشک ہو چکی ہیں۔

اس کے علاوہ، خشک سالی اور زیر زمین پانی کا گہرائی میں جانے سے بلوچستان میں زراعت کا پیشہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔

کسانوں نے زیرکاشت رقبہ کم کر دیا جس سے ان کی زندگی مزید کٹھن ہو گئی اور بال بچوں کے ساتھ مال مویشی کا رکھنا بھی نا ممکن ہو گیا۔

پشین، خانوزئی، لورالائی سمیت مختلف علاقوں کے لاتعداد اجڑے باغات حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کا منہ بولتا ثبوت ہیں جنہوں نے پانی زخیرہ کرنے کی بروقت منصوبہ بندی نا کر کے ان علاقوں کے کسانوں اور دیگر رہائیشیوں کو ایک غم و الم کی داستان بنا دیا۔

کبھی یہ علاقے سیب، بادام اور انار کے باغات سے بھرے پڑے تھے، اس کے ساتھ ساتھ مال مویشی جو ان علاقوں میں رہنے والوں کی آمدن کا اہم ترین ذریعہ تھے، پانی کی قلت اور خوراک کی کمی کے باعث ختم ہونے کے قریب ہیں۔

گزشتہ ماہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بلوچستان میں پانی کی شدید کمی پر از خود نوٹس لیا۔

عدالت عظمیٰ نے دو سابق وزرائے اعلیٰ کو طلب کیا تاکہ وہ عدالت کو صوبے میں پانی کی شدید کمی کی وجوہات بیان کریں۔

چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ "اگر پانی کا مسئلہ چندہ جمع کر کے حل کیا جا سکتا ہے تو میں وہ پہلا شخص ہوں گا جو چندہ دے"۔

مزید سماعتوں کے دوران انہوں نے حکومت وقت کو پانی کا بل نا دینے اور غیر قانونی کنکشن رکھنے والوں اور غیر قانونی ٹیوب ویل لگانے والوں کے خلاف فوری سخت کارروائی کرنے کا حکم دیا۔

یہاں یہ بات قبل ذکر ہے کہ کوئٹہ میں واسا کے 423 ٹیوب ویلوں میں 100 ٹیوب ویلز خراب پڑے ہیں جبکہ صرف کوئٹہ میں غیر قانونی ٹیوب ویلوں کی تعداد 3000 سے زائد ہے۔

صوبائی محکمہ آب پاشی کے افسران کا کہنا ہے کہ فوری طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ان کے نزدیک اس مسئلے کا مستقل حل فوری طور پر چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کرنے میں ہے۔

اس کے علاوہ زیر زمین پانی کی سطح میں ہونے والی کمی پر قابو پانے کے لیے بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے مئی میں اپنی حکومت ختم ہونے سے ایک ماہ پہلے صوبے میں مصنوعی بارش کے لیے اقدامات کرنے کے احکامات جاری کیے اور اس مقصد کے لیے دبئی کی ایک کمپنی کلائیمیٹ کنٹرول ٹریڈنگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو سے ملاقات بھی کی۔

اس ملاقات کے دوران روس کے موسمی تبدیلی کے ماہرین نے انہیں بتایا کہ کس طرح دنیا بھر میں خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں نہایت کامیاب مصنوئی بارش کی جاتی ہے۔

ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا اس منصوبہ پر جولائی میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے عمل درآمد کیا جاتا ہے یا ایک بار پھر اگلی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر جلد پانی کے مسئلے پر توجہ نہیں دی گئی تو بلوچستان کے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں سے لوگ ایک با پھر ہجرت کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

مزید خبریں :