02 نومبر ، 2018
'کامی کے بچے تم نے پھر میری لپ اسٹک کو ہاتھ لگایا؟ ساری شیپ خراب کر دی۔ اتنی مشکل سے ملا تھا یہ کلر۔ آنے دو ابو کو، تمھاری شکایت لگاؤں گی، کل تو بڑے بھیا بھی امی سے کہہ رہے تھے کہ کامی پر نظر رکھیں، کل کچھ عجیب لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ آج تو تمھاری ابو کے سامنے حاضری لازمی ہے'!
یہ یا اس قسم کے ملتے جلتے جملے پاکستان میں کم و بیش ہر ٹرانس جینڈر یا مخنث کی طرح کامی سڈ کا بھی مقدر بنے، جو اب مختلف پلیٹ فارمز پر اپنا آپ منوا رہے ہیں۔
حال ہی میں پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ریمپ/فیشن ماڈل اور اداکار کامی سڈ کی فلم 'رانی' بین الاقوامی اعزاز اپنے نام کرنے میں کامیاب رہی۔
این بی سی یونیورسل شارٹ فلم فیسٹول میں 'رانی' کے ڈائریکٹر اور مصنف حماد رضوی کو 'آؤٹ اسٹینڈنگ رائٹر' قرار دیا گیا۔
اس حوالے سے کامی کا کہنا تھا، 'میں خوش قسمت ہوں کہ میں نے رانی کا کردار کیا۔ اس کی ہی وجہ سے مجھے اتنے بڑے ریڈ کارپٹ یا فلم فیسٹول میں آنے کا موقع ملا۔ کیا مجھ سے پہلے کسی اور خواجہ سرا کو یہ موقع ملا؟'
ان کا مزید کہنا تھا، 'میں خوش ہوں کہ ہالی وڈ اور لاس اینجلس میں لوگوں نے مجھے بہت محبت دی۔ میں خود کو ایک پروفیشنل اداکارہ کے طور پر منوا رہی ہوں۔ میں اچھا کام کرنا چاہتی ہوں، چاہے وہ ہالی وڈ ہو، بولی وڈ ہو یا لالی وڈ'۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کامی کا کہنا تھا،'اس میں صرف تماشہ ہی نہیں بلکہ پاکستانی کے بنیادی مسائل کو بھی اجاگر کیا گیا ہے اور اتنے مشکل موضوع کو بہت عمدگی کے ساتھ اسکرین پر پیش کیا گیا ہے، اس کے کردار جاندار ہیں اور کہانی متاثر کن'۔
کامی کے مطابق 'کہانی اور ہدایات کاری جاندار ہو تو اداکاری میں بھی جان ڈالی جاسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ تینوں عناصر فلم رانی کو بین القوامی فیسٹیولز میں ایوارڈز دلوا رہے ہیں'۔
ان کا مزید کہنا تھا، 'خواجہ سرا خوبصورت بھی ہیں اور ٹیلنٹڈ بھی، بس ان کو اچھے مواقعوں کی ضرورت ہے'۔
واقعی یہ لوگ قدرتی طور پر مختلف ضرور ہوتے ہیں لیکن ان کے مختلف ہونے میں ان کا کوئی قصور نہیں۔گھر والے ہوں یا دوست احباب سب کی نظر میں مخنث حضرات انسان سے زیادہ مذاق کی چیز ہوتے ہیں۔ نوعمری کے جس دور میں انہیں گھر والوں کے پیار اور اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے، اُس دور میں انہیں ملامت، ڈانٹ پھٹکار اور سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں اور پھر یہ بچے ان حالات سے گھبرا کر ایک دن گھر سے فرار ہوجاتے ہیں۔
لیکن گھر سے باہر کی دنیا میں انہیں کیا ملتا ہے؟ کبھی ہم ان پر رحم کی بھیک نچھاور کرتے ہیں، تو کبھی انہیں مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے، لیکن ان ٹرانس جینڈرز میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ایک الگ راہ متعین کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
کامی سڈ بھی بچپن سے ہی پُر اعتماد اور ہر ایکٹیویٹی میں آگے تھیں، اسکول میں پاکستان ڈے پر ملی نغمے ہوں یا ٹیبلو کی پرفارمنس یا پھر میلاد پڑھنے کا کوئی موقع ہو تو بھی کامی سب سے پہلی صف میں بیٹھی نظر آتیں۔
یہی اعتماد تھا جس نے ان کو سوشل ایکٹوسٹ، ماڈل اور اداکار بنا ڈالا۔
ماڈلنگ سے اداکاری کے میدان میں قدم
ماڈلنگ سے اداکاری کا سفر یقیناً کامی کے لیے بھی ایک مشکل فیصلہ تھا۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا، 'میں نے اس سے پہلے بھی پروڈکشن کمپنی گرے اسکیل کے ساتھ چند ڈاکو مینٹریز میں کام کیا ہے، لیکن فلم میں باقاعدہ ایک اداکارہ کی طرح رانی کا کردار کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا'۔
فلم کے بارے میں بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'یہ پاکستانی نژاد امریکی حامد رضوی کی بہترین کاوش اور ایک پاکستانی ٹرانس جینڈر کے حوالے سے مثبت اور سنجیدہ کوشش ہے'، ساتھ ہی انہوں نے اس فلم کو کچھ عرصہ قبل ایک نجی ٹی وی چینل پر چلنے والے ڈرامہ سیریل 'خدا میرا بھی ہے' سے بہتر قرار دیا، جس میں عائشہ خان (جو اب اداکاری ترک کرچکی ہیں) نے ایک مخنث بچے کی ماں کا کردار ادا کیا تھا اور معاشرے میں ایسے بچوں کو منوانے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔
فلم پروجیکٹ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'جب گرے اسکیل کی پروجیکٹ ڈائریکٹر امامہ ناصر نے ان سے رابطہ کیا تو پہلے تو انہوں نے منع کر دیا کہ وہ اداکارہ نہیں ہیں، اس لیے وہ خود کو اس کام کے لیے مناسب انتخاب نہیں سمجھتیں، لیکن امامہ کا کہنا تھا کہ رانی کے کردار کے لیے کامی بہترین تھیں، دیگر مخنث افراد کا بھی آڈیشن لیا گیا تھا لیکن حامد رضوی کو بھی کامی کا کام پسند آیا'۔
کامی نے بتایا کہ گھر والوں کے ساتھ ساتھ انہیں رہنمائی کرنے والے لوگ بھی اچھے ملے اور تعلیم اور بہتر ماحول کی بدولت وہ کسی غلط ہاتھ میں نہیں پہنچے اور آج فلم رانی کی اسکریننگ ہو یا پھر کوئی انٹرنیشنل کانفرنس، لندن میں منعقدہ کراچی لٹریچر فیسٹیول یا کوئی سیمنار انہیں دعوت دے کر بلایا جاتا ہے۔
27 سالہ کامی آج جس مقام پر ہیں، وہ انہیں ایک دم حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے انھوں نے محنت کی ہے۔ وہ تعلیم کے زیور کو اپنا سب سے بڑا ہتھیار سمجھتی ہیں اور تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہوئے وہ اپنے دیگر مخنث ساتھیوں کو بھی مشورہ دیتی ہیں کہ تعلیم کو نہ چھوڑیں۔ ڈانس اگرچہ ان کا شوق ضرور ہے لیکن اب وہ ماڈلنگ اور اداکاری کو ہی اپنا مسقتبل سمجھتی ہیں۔
کامی کے خیال میں معاشرے میں بہتری آرہی ہے، میڈیا پر ٹرانس جینڈرز کے حقوق پر بات کی جانے لگی ہے۔الیکشن 2018 میں تیرہ ٹرانس جینڈر نے حصہ لیا، ان کی صنف پر ڈرامے بن رہے ہیں لیکن اب بھی آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔
وہ بیکن ہاؤس اسکول کے پروجیکٹ کا بھی حصہ ہیں، جس میں طلبہ کو سکھایا جارہا ہے کہ 'ٹرانس جینڈر ہونا کوئی برائی نہیں اور نہ ہی یہ لوگ معذور ہیں' بلکہ ان جیسے لوگوں کو خاندان اور معاشرے کے اعتماد اور ساتھ کی ضرورت ہے۔
اسی اسکول کے تحت وہ مخنث بچوں کی بہتر پرورش اور تعلیمی مشکلات کے بہتر حل کے لیے والدین اور ٹیچرز کی مدد بھی کریں گی، کیونکہ بقول کامی والدین، تعلیم اور اچھے لوگوں کا ساتھ ایسے بچوں کی زندگیاں بدل سکتا ہے۔
یقیناً کامی سڈ بین القوامی سطح پر پاکستانی معاشرے کی مثبت تصویر پیش کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ بحثیت خواجہ سرا رول ماڈل ان کا کہنا ہے کہ 'مجھے اپنی ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے پیار ہے، صرف پاکستانی نہیں بلکہ پوری دنیا کی ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے۔ چاہے وہ کسی بھی گھر اور محلے سے تعلق رکھتے ہوں'۔