Time 30 جولائی ، 2018
بلاگ

خیبرپختونخوا میں پھر تحریک انصاف کیوں جیتی؟

— فوٹو:فائل 

تحریک انصاف، وہ جماعت جو پاکستان کو چلانے کے لئے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکی ہے۔

اس کے لوگ مانیں یا ناں مانیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے صوبے اور ملک کو چلانے کا تجربہ خیبرپختونخوا میں حاصل کیا، اس کی ہائی کمان میں سے کسی کو اگر ایوان اقتدار یا محلاتی اقدار کا پتہ چلا ہے تو اس کا کریڈٹ خیبرپختونخوا کو جاتا ہے جس نے اسے اپنا اختیار اور وسائل دے کر موقع دیا کہ وہ اس کی گاڑی پر ہاتھ صاف کرکے اپنی ڈرائیونگ کی غلطیاں نکال لیں تاکہ اسے جب اپنے ہدف پر موجود پنجاب اور وفاق کی حکومتیں ملیں تو وہ اتنے ناتجربہ کار نہ ہوں جتنے وہ 2013 میں تھے۔

خود ملک کے متوقع وزیر اعظم عمران خان کو بھی اگر محکموں کے سیکریٹریز اور صوبے کے چیف سیکرٹریز نے اسلام آباد اور بنی گالہ میں جا جا کر بریفنگز دیں تو یہی ان کی زندگی کا پہلا تجربہ تھا کہ وہ اس قسم کے لوگوں کو اپنے سامنے بٹھا سکیں۔ 

اس دوران صوبے کی بیوروکریسی نے بھی کبھی تحریک انصاف کو کوئی مشکل لمحہ نہیں دیا یعنی اپنی پوزیشن پر اسٹینڈ نہیں لیا۔

اسے اس صوبے کے لوگوں کی محبت کہیں یا کچھ اور لیکن تحریک انصاف کے حصے میں یہ خوش نصیبی بھی آگئی ہے کہ تاریخ میں وہ جماعت بن گئی ہے جسے مسلسل دوبار اس صوبے پر حکومت کا موقع مل رہا ہے ورنہ یہ صوبہ تو وہ بدمست جنگلی گھوڑا رہا ہے جس نے اپنی پیٹھ پر کبھی کسی سوار کو زیادہ دیر ٹکنے نہیں دیا۔

اس نے ماضی کی ہر حکومت کو اپنے سے اگلی ہی واری گرادیا یہاں پر پیپلزپارٹی کی حکومت رہی، اے این پی کو یہاں اقتدار ملا اور اسی صوبے کے لوگوں نے مساجد اور مدرسوں میں پڑھانے والے غریبوں کو بھی نئی کاروں میں بیٹھنے کا حق دیا لیکن ان کی حکومتوں کے خاتمے کے بعد کبھی ان کو دوبارہ یہ موقع نہیں دیا۔

تحریک انصاف وہ واحد جماعت بن گئی ہے جو یوں تو مسلم لیگ، اے این پی، پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے کی طرح ہی جب اس صوبے سے گئی تو اس کے کریڈٹ پر ایسا کوئی باغ نہیں تھا جس کے پھولوں کو وہ لوگوں کو اپنی کامیابی کی نشانی بنا کر دکھاتے۔ 

تحریک انصاف نے بھی اس صوبے پر روایتی انداز میں حکومت کی بلکہ بہت سارے معاملات میں تو وہ اپنے پیش رووں سے بھی کمتر کارکردگی کی حامل رہی لیکن اس کی خوش قسمتی، جو ساتویں آسمان پر رہی کہ فرشتوں نے اس کے تخت کو سہارا دیئے رکھا اور اسے گرنے سے پہلے ہی دوبارہ تھام لیا۔

لیکن اسے دوبارہ حکومت کا یہ اختیار ایسے ہی نہیں ملا اس کے پیچھے بہت سارے عوامل ہیں جن میں سب سے اہم چیز تحریک انصاف کے پاس اپنی پیش رو حکومتوں کے مقابلے میں پروپیگنڈے کا جواب دینے کا بہترین نظام موجود تھا جس کی مثال سابقہ کسی حکومت کے دور میں نہیں ملتی۔

اس سے پہلے کی حکومتیں جب خراب کارکردگی یا کرپشن کی وجہ سے بدنام ہوئیں یا بدنام کردی گئیں اس کے بارے میں جب میڈیا میں خبریں آئیں تو ان کے پاس اپنی صفائی کا موثر جواب دینے کے پلیٹ فارم موجود نہیں ہوا کرتے تھے اور یہی وہ پہلی وجہ تھی جس کی وجہ سے اس صوبے میں اے این پی، پیپلزپارٹی اور ایم ایم اے تک کو حکومتوں سے چلتا کیا گیا تو ان کے پاس اپنی صفائی دنیا کو دکھانے کا کوئی نظام نہ تھا۔

لیکن تحریک انصاف کی خوش قسمتی تھی کہ اسے الزام لگنے سے پہلے ہی سوشل میڈیا کے ذریعے جواب دینے کا پورا نظام حاصل رہا۔ مختلف وجوہات کی بنا پر تحریک انصاف وہ خوش قسمت جماعت رہی جسے سیاست کے افق پر باضابطہ آنے کے بعد سے پاکستان کی بہت ساری مین اسٹریم میڈیا کی حمایت حاصل رہی۔ 

اس نے صوبے میں اپنی حکومت کی کمزوریوں کو بھی پاکستان کے باقی حصوں میں اپنی کمزوری کی بجائے طاقت میں ڈھال دیا کہ وہ کام بھی کررہی ہے اور اپنے بہت سارے دشمنوں سے نمٹ بھی رہی ہے حالانکہ ناکام احتساب، بجلی کے ساڑھے تین سو ڈیموں کی تعمیر جو کبھی نہ ہوسکی، لوگوں کو ملازمتیں دینے، اپنے لوگوں کو کرپشن سے بچانے، پارٹی کے اندر توڑ پھوڑ اور بہت سارے ایسے معاملات رہے جن کی مثال ان سے پہلے کی کسی حکومت میں نہیں ملتی۔

اس جماعت کے رہنماؤں کی سوشل میڈیا پر مضبوط گرفت نے اس کے خیبر پختونخوا میں گرتے مورال کو بحال رکھا اور اس نے باقی کے پاکستان میں خیبرپختونخوا کی تصویر میں رنگ کو کچھ اس انداز میں بھرا کہ اس فرضی یا کچے رنگ نے اسے دیگر صوبوں میں بھی پوری مدد فراہم کی۔

اس صوبے کے لوگوں نے پاکستانی مین اسٹریم میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے اس نقطہ نظر کو پوری پذیرائی دی کہ وہ بڑی مشکل صورتحال سے گزر کرحکومت کررہی ہے حالانکہ ایسا بالکل بھی نہ تھا بلکہ ان گذشتہ 5 سالوں میں جو مردہ اپوزیشن اس جماعت کے حصے میں آئی وہ اس کی خوش قسمتی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ 

صوبے کے حکمران پرویز خٹک نے اپنی جماعت کے لوگوں کو تو وقتاً فوقتاً پارٹی سے نکالنے کا سلسلہ جاری رکھا لیکن اس نے اسمبلی میں موجود اپنی اپوزیشن جماعتوں کو پوری طرح رام رکھا جس کی شکایات خود تحریک انصاف کے ایم پی ایز نے بار بار کیں۔

نا صرف ان پانچ سالوں میں اپوزیشن جماعتوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو کوئی سخت لمحہ نہیں دیا بلکہ پانچ سالوں میں تحریک انصاف کو بے نقاب نہ کرنے کے اس جرم کی سزا بھی انہی کو ملی کہ عوام نے ان کے مخالف کو سچا جان کر ان جماعتوں کو مسترد کردیا۔

اس صوبے کے لوگوں نے عمران خان کو پانچ سالوں میں ان کے ذات کے گرد گھومنے والے بحرانوں خصوصاً شادیوں کے باوجود پھر بھی دوسروں سے بہتر سمجھا اور اسے اپنا رہنما کیا۔

اس بات میں کوئی حقیقت نہیں کہ تحریک انصاف کی دوسری بار کی جیت کو سارے کے سارے جھرلو ہی کا سہارا رہا ہے بلکہ یہ بات بلامبالغہ کہی جاسکتی ہے کہ اس صوبے کے جوانوں کو تو چھوڑیں اس کے عمر رسیدہ لوگوں نے عمران خان سے وابستہ اپنی امیدوں کو دم توڑنے نہیں دیا اور ان انتخابات میں اسے ایک بار پھر کامیاب کرادیا۔

ان عوامل میں سب سے اہم جو بات تحریک انصاف کی جیت کا باعث بنی اس میں دیگر جماعتوں کے عرصہ دراز سے تیار کئے ہوئے وہ گھوڑے تھے جنہیں ان جماعتوں نے الیکشن میں اتارنا تھا لیکن ان گھوڑوں نے ہوا کا رخ دیکھ کر بروقت سائس بدل لیا اور الیکٹیبلز کی صورت تحریک انصاف کو پیارے ہوگئے۔

یہ وہ لوگ تھے جن کے پاس دولت بھی تھی، اپنی سابقہ جماعتوں میں قیام کے دوران بننے والا ووٹ بینک بھی، جس کے ساتھ تحریک انصاف کے گڈ ویل اور اس پر فضل خاص نے وہ جادو کیا کہ یہ لوگ بھی اسمبلیوں میں پہنچ گئے اور تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ کو بھی بچاگئے۔

ایک چیز اور بھی تھی جس نے ووٹر کو ایک بار پھر اس بات پر مجبور کیا کہ وہ تحریک انصاف کو ووٹ دے ، لوگوں کا یہ یقین کہ جب تک عمران خان خود مرکز میں حکومت میں نہیں آتے اس وقت تک ان کی جماعت کی بننے والی کسی حکومت پر  تکیہ نہ کیا جائے کہ یہ عمران خان کی حکومت ہے کیونکہ اس میں تو عمران خان تھا ہی نہیں۔

پورے پاکستان کی طرح خیبرپختونخوا میں بھی ووٹر کو عمران خان کے مخالفین خصوصاً مسلم لیگ ن اور کسی حد تک پیپلزپارٹی کے خلاف عدالتی فیصلوں نے بھی اس تاثر کو جنم دیا کہ شاید یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ آئندہ حکومت عمران خان کی ہے۔

اس تاثر نے ایک بارپھر ایک بڑی تعداد کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ایک بار پھر عمران خان کی جماعت کو ووٹ دیں تاکہ ستر سال بعد ہی سہی کم ازکم اب کی بار تو وفاق اور صوبے میں ایک ہی جماعت کی حکومت بنے اور اس صورتحال سے صوبے کے لئے فائدہ اٹھایا جائے، ماضی میں مرکز گریز صوبائی حکومتوں نے صوبے کے بہت سارے معاملات میں نقصانات کو جنم دیا۔

یہ اور اس جیسی بہت ساری باتیں اپنی جگہ پر قائم تھیں کہ الیکشن بھی سونے پہ سہاگہ کے مصداق کچھ ایسے انداز میں منعقد ہوئے کہ سبحان اللہ۔ یہ انتخابات جس انداز میں ہوئے اس نے اس کی ساکھ کے حوالے سے اپنے پیچھے بہت سارے سوالات اور وہ لوگ چھوڑے ہیں جنہوں نے ابھی تحریک انصاف کو کامیاب قرار دینے والوں کے خلاف عدالتوں اور انتخابی ٹربیونلز سے انصاف کے حصول کے لئے بھی رابطہ کرنا ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان درخواستوں پر فیصلے بھی مہینوں اور سالوں میں ہوں گے اور ہم ایک بار پھر ایک نئے جنرل الیکشن کے دروازے پر ہوں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔