05 ستمبر ، 2018
کراچی: سندھ حکومت نے پیپلزپارٹی کے رہنما شرجیل میمن کے کمرے سے برآمد مبینہ شراب کی بوتلوں کا کیمیکل معائنہ کرنے والے چیف کیمیکل ایگزامنر ڈاکٹر زاہد انصاری کو معطل کردیا۔
سندھ حکومت کے نوٹیفکیشن کے مطابق ڈاکٹر زاہد انصاری نے غیر روایتی طریقہ کار کے تحت کیمیکل معائنہ کیا جس کے بعد انہیں چیف کیمیکل ایگزامنر کے عہدے سے معطل کردیا گیا ہے جب کہ انہیں سیکریٹری سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے عہدے سے بھی ہٹادیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں ڈاکٹر زاہد انصاری کو معطلی کے دوران ہیڈکوارٹر میں موجود رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ شرجیل میمن کے کمرے سے برآمد ہونے والی بوتلوں کی جانچ کرنے والے چیف کیمیکل ایگزامنر نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ اسپتال کے کمرے سے ملنے والی ایک بوتل میں شہد اور دوسری بوتل میں کھانے کا تیل موجود ہے۔
چیف کیمیکل ایگزامنر ڈاکٹر زاہد انصاری کی دستخط شدہ رپورٹ کے مطابق سیل شدہ بوتلیں کیمیکل لیباریٹری بھیجی گئی تھیں۔
کیمیکل لیبارٹری کی رپورٹ کے مطابق شرجیل میمن کے خون کے نمونوں میں بھی الکوحل نہیں پایا گیا۔
2 اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل بھی معطل
دوسری جانب آئی جی جیل نے 2 اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جیل کو معطل کردیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق دونوں افسران کو لاپرواہی اور ذمہ داریاں نہ نبھانے پر معطل کیا گیا۔
نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ سینٹرل جیل مجاہد خان اور اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ ملیر جیل نسیم احمد کو معطل کیا گیا ہے، یہ دونوں افسران ضیاء الدین اسپتال میں سب جیل کے انچارج تھے۔
شرجیل میمن کے کمرے پر چھاپے کی اندرونی کہانی
گزشتہ دنوں چیف جسٹس کے ضیاء الدین اسپتال اور جناح اسپتال کے دورے کی اندرونی کہانی سامنے آگئی ہے جس کے مطابق یکم ستمبر کو صبح سویرے آئی جی جیل نے وی آئی پی قیدیوں کے اسپتال میں داخلے پر چیف جسٹس کو بریفنگ دی۔
آئی جی جیل خانہ جات نے رپورٹ میں بتایا کہ شرجیل میمن ضیاء الدین اسپتال، انور مجید این آئی سی وی ڈی اور عبدالغنی مجید جناح اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
چیف جسٹس نے آئی جیل سے استفسار کیا کہ کیا واقعی یہ ملزمان ان ہی اسپتالوں میں ہیں؟ جس پر آئی جی جیل نے کہا کہ جی بالکل، یہ ملزمان ان ہی اسپتالوں میں ہیں، اس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ گاڑی تیار کی جائے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار ضیاء الدین اسپتال پہنچے تو شرجیل میمن لگژری کمرے میں سو رہے تھے اور کمرے کے باہر ملازم نے بتایا کہ شرجیل میمن کمرے میں سو رہے ہیں جب کہ ان کے کمرے کی لائٹ بھی بند تھی جس پر چیف جسٹس نے ملازمین کو لائٹیں آن کرنے اور شرجیل میمن کو اٹھانے کا حکم دیا۔
شرجیل میمن کالے رنگ کی ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں بغیر لاٹھی کے سہارے باہر آئے جس پر چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ 'شرجیل میمن، میں چیف جسٹس پاکستان، آپ کی خیریت معلوم کرنے آیا ہوں'۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'یہ ہے آپ کی سب جیل، سب جیل اسے کہتے ہیں؟ یہ تو مکمل صحت مند لگ رہے ہیں لہٰذا ان کو یہاں سے فوری جیل منتقل کریں'۔
چیف جسٹس نے شراب کی بوتلیں دیکھنے کے بعد شرجیل میمن سے استفسار کیا کہ یہ کیا ہیں؟ جس پر شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ یہ میری نہیں۔
دو بوتلیں ڈبے میں اور ایک ڈبے کے اوپر شراب کی خالی بوتل رکھی ہوئی تھی جس پر سپریم کورٹ کے عملے نے ایک بوتل سونگھ کر چیک کیا اور بتایا کہ اس میں سے شراب کی بو آرہی ہے۔
اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چیف سیکریٹری کو بلائیں اور دکھائیں یہ کیا ہو رہا ہے؟ چیف جسٹس نے عدالت واپس پہنچنے پر عدالتی عملے کو ضیاء الدین اسپتال جانے اور کمرے کا ریکارڈ مرتب کرنے کی ہدایت کی۔
ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کا عملہ ضیاء الدین اسپتال پہنچا تو ایس ایچ او غائب تھے جس پر عدالتی اسٹاف کو ایس ایچ او کا انتظار کرنا پڑا جب کہ اسپتال اسٹاف نے سپریم کورٹ عملے کو روکنے کی بھی کوشش کی لیکن سپریم کورٹ کا عملہ مزاحمت کرکے شرجیل میمن کے کمرے تک پہنچا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالتی عملے کو شرجیل میمن کے کمرے کے باہر بھی روکا گیا جبکہ کمرے میں شرجیل میمن واش روم سے تولیا پہن کر باہر نکل رہے تھے۔
شرجیل میمن نے مکالمہ کیا کہ میں نے شراب نہیں پی ہے لہٰذا میڈیکل کرالیں تاہم ذرائع کے مطابق سپریم کورٹ کے عملے کے پہنچنے تک کمرے کی چیزیں غائب کردی گئیں، شراب کی بوتلیں اور دیگر اشیاء بھی غائب تھیں لیکن سپریم کورٹ عملے نے کمرے کی مکمل ویڈیو بنائی۔