11 ستمبر ، 2018
کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے سانحہ 12 مئی کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) اور جوڈیشل ٹریبونل بنانے کا حکم دیا ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس اقبال کلہوڑو اور جسٹس کے کے آغا پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سانحہ 12 مئی 2007 سے متعلق درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا۔
عدالت نے فیصلے میں سندھ حکومت کو دو ہفتے میں عملدرآمد کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی جب کہ عدالت نے اے کلاس کے تحت ختم کیے گئے 65 مقدمات بھی دوبارہ کھولنے کا حکم دیا۔
سندھ ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں سانحہ 12 مئی کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی سے متعلق رپورٹ بھی پیش کرنے کا حکم دیا۔
دو رکنی بینچ نے چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ سے ان مقدمات کی مانیٹرنگ کے لیے جج بھی مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔
عدالت نے حکم دیا کہ جوڈیشل ٹریبونل امن و امان خراب کرنے اور ذمہ داران کا تعین کرے اور یہ بھی تعین کرےکہ کس کے حکم پر راستے بند کیے گئے اور امن وامان خراب کیا گیا۔
عدالت نے فیصلے میں کئی نکات اٹھائے، کیا چیف جسٹس پاکستان کو روکنے کے لیے وفاقی اور سندھ حکومت کا گٹھ جوڑ تھا، ملیر، سٹی کورٹ اور ہائیکورٹ کو مشتعل ہجوم نے کیوں اور کس کے حکم یرغمال بنایا اور پولیس شرپسندوں پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہوئی۔
عدالت نے 12 مئی اور اس سے پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں رابطوں کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ 12 مئی کو ممکنہ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے حکام نے کیا احکامات دیے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی کا بھی تعین کیا جائے۔
عدالت نے سوال کیا کہ پولیس نے کنٹینرز اور واٹر ٹینکروں سے بند راستے کھولنے کیلیے کیا اقدامات کیے تھے، نجی ٹی وی کے دفتر پر شرپسندوں کی مسلسل فائرنگ کو کیوں نا روکا گیا، کیا چیف جسٹس کی کراچی آمد کے لیے فول پروف سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے اور کیا چیف جسٹس کا استقبال کرنے والوں کو کسی خاص سیاسی جماعت نے نشانہ بنایا اگر ایسا ہے تو اس جماعت اور ذمہ دران کا تعین کیا جائے۔
عدالت نے سوال کیا کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ میں کیوں ناکام ہوئے، کیا سندھ حکومت نے 12 مئی 2007 کو پولیس کی مدد کے لیے رینجرز کی مدد لی تھی، کیا سندھ حکومت امن وامان کی ممکنہ صورتحال سے آگاہ تھی، اے این پی، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کو 12 مئی کو ریلی کی اجازت کیوں دی گئی۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے 12 مئی 2018 کو ہائیکورٹ کو تین ماہ میں مقدمہ نمٹانے کا حکم دیا تھا جس کے بعد عدالت نے فریقین کے وکلا سمیت عدالتی معاونین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار اقبال کاظمی نے تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کی استدعا کی جب کہ وفاق اور عدالتی معاونین نے بھی کمیشن بنانے کے حق میں دلائل دیے تاہم سندھ حکومت نے عدالتی کمیشن بنانے کی مخالفت کی تھی۔
سانحہ 12 مئی کا پس منظر
12 مئی 2007 کو وکلاء تحریک اپنے عروج پر تھی اور اُس وقت کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ کی 50ویں سالگرہ کے موقع پر کراچی آرہے تھے کہ اس موقع پر شہر کو خون سے نہلا دیا گیا۔
معزول چیف جسٹس کی کراچی آمد پر اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان استقبال کے لیے نکلے اور کئی مقامات پر اُس وقت کی حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں میں مسلح تصادم شروع ہوا۔
شہر کی کئی شاہراہوں پر اسلحے کا آزادانہ استعمال دیکھنے میں آیا اور خون ریزی میں وکلاء سمیت 48 افراد دن دہاڑے قتل کردیئے گئے۔
ان واقعات میں 130 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے جبکہ درجنوں گاڑیاں اور املاک بھی نذر آتش کی گئیں جس کے بعد شہر کے مختلف تھانوں میں ان افراد کے قتل کے 7 مقدمات درج ہوئے۔
تقریباً 20 ماہ قبل پولیس نے ساتوں مقدمات کے چالان انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں جمع کرائے، جس میں اُس وقت کے مشیر داخلہ اور موجودہ میئر کراچی وسیم اختر اور رکن سندھ اسممبلی کامران فاروق سمیت 55 سے زائد ملزمان نامزد ہیں۔
یہ تمام ملزمان ضمانت پر رہا ہیں اور مقدمات میں 20 ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ملزمان پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی۔