17 ستمبر ، 2018
گزشتہ ماہ 13 اگست کی شب کو جہاں قوم آزادی کا جشن منانے میں مصروف تھی، وہیں کراچی کے علاقے ڈیفنس میں مبینہ پولیس مقابلے کے دوران گولی لگنے سے زخمی ہونے والی 10 سالہ امل کے والدین اس کی جان بچانے کے لیے اسپتالوں میں دربدر پِھر رہے تھے۔
اُس دن امل تو ان سے ہمیشہ کے لیے روٹھ گئی، لیکن اس کے والدین اب اس حوالے سے کوشاں ہیں کہ آئندہ کوئی اور امل اس طرح کے سانحے کا شکار نہ ہو۔
واقعے کا پس منظر ہم میں سے شاید اکثر کو یاد ہوگا، جب 13 اگست کی شب کراچی میں ڈیفنس موڑ کے قریب اختر کالونی سگنل پر ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ایک مبینہ ملزم کے ساتھ ساتھ جائے وقوع پر موجود گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھی 10 سالہ بچی بھی جاں بحق ہوگئی تھی۔
امل کے والدین— عمر اور بینش آج جیو نیوز کے مارننگ شو 'جیو پاکستان' کے مہمان تھے، جہاں انہوں نے اُس شب پیش آنے والے المناک واقعے کی تفصیلات شیئر کیں۔
امل کے والد عمر نے بتایا، 'اُس رات ہم کورنگی روڈ سے ایف ٹی سی کی طرف جارہے تھے، جیسے ہی سگنل بند ہوا تو ایک بندہ آیا اور مطالبہ کیا کہ سب چیزیں دے دیں'۔
انہوں نے بتایا کہ 'اس سگنل پر اُس وقت بہت رش تھا، اُس شخص نے میرا فون لیا، بینش کا بیگ لیا اور ہمیں کہا کہ شیشہ اوپر کرلو اور پھر وہ پیچھے چلا گیا'۔
عمر نے مزید بتایا کہ جب ہماری گاڑی چلی تو اچانک ہمیں گولی چلنے کی آواز آئی اور ہمیں لگا کہ ہماری گاڑی کی ونڈ اسکرین پر گولی لگی ہے، جب ہم نے پیچھے دیکھا تو جہاں امل اور ہماری چھوٹی بیٹی بیٹھی تھی، وہاں سیٹ پر خون تھا'۔
انہوں نے بتایا کہ 'ہمیں اندازہ نہیں ہوا کہ گولی کہاں لگی ہے، میں نے لوگوں سے درخواست کی، جس پر مجھے نکلنے کا راستہ مل گیا اور خوش قسمتی سے ہم 3 سے 5 منٹ میں قریب ہی واقع نجی اسپتال نیشنل میڈیکل سینٹر (این ایم سی) پہنچ گئے'۔
عمر کے مطابق 'اسپتال میں امل کو گلے میں ٹیوب لگائی گئی اور ماتھے پر پٹی رکھی گئی اور پھر انہوں نے ہمیں کہا کہ آپ کے پاس ٹائم نہیں ہے، بچی کو جناح اسپتال لے جائیں'۔
انہوں نے بتایا کہ این ایم سی والوں نے میڈیکولیگل کارروائی کی وجہ سے یہ کہا کیونکہ یہ پولیس کیس تھا، جس کے بعد انہوں نے خود سے چھیپا ایمبولینس کا انتظام کیا اور اپنی بیٹی کو جناح اسپتال لے کر گئے، لیکن تب تک وہ دم توڑ چکی تھی۔
اگرچہ اس حوالے سے نیشنل میڈیکل سینٹر کی جانب سے کوئی باقاعدہ موقف سامنے نہیں آیا، تاہم اسپتال ذرائع کے مطابق جب بچی کو لایا گیا تو وہ دم توڑ چکی تھی۔
پولیس ایکشن غلط تھا!
پروگرام میں ڈی آئی جی ساؤتھ جاوید اوڈھو بھی شریک تھے، جنہوں نے امل کے غمزدہ والدین کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ 'ہم سمجھتے ہیں کہ یہ روٹین کیس نہیں ہے اور غیر معمولی طور پر تکلیف دہ ہے'۔
واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے ڈی آئی جی ساؤتھ نے بتایا کہ 'انکوائری رپورٹ کے مطابق پولیس کے دونوں موٹرسائیکل سواروں کو بتایا گیا کہ آگے ڈکیتی ہو رہی ہے، جس کے بعد وہ وہاں پہنچے اور پولیس ایکشن لیا، جو میرے خیال میں بہت غلط ہے'۔
رش والی جگہ پر اے کے 47 سے پولیس ایکشن کیوں ہوا؟
رپورٹس کے مطابق بچی کو لگنے والی گولی اے کے 47 کلاشنکوف کی تھی، جس پر یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ ایک رش والی جگہ پر ملزمان سے مقابلے کے دوران بڑے ہتھیار کا استعمال کیوں کیا گیا۔
اس حوالے سے ڈی آئی جی ساؤتھ نے کہا کہ 'میں اس کے خلاف ہوں'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ '1979 کی افغان وار کے بعد جو چیزیں ہمیں ملیں، اُن میں سے ایک اے کے 47 بھی تھی، جو جرائم پیشہ افراد استعمال کرتے تھے، اُس وقت یہ سوچا گیا کہ پولیس کو بھی ایسی ہی پاورز اور ایسے ہی ہتھیار دیئے جائیں، جو اب تک چلا آرہا ہے'۔
دوسری جانب میڈیکولیگل کارروائی کے حوالے سے ڈی آئی جی جاوید اوڈھو نے موقف اختیار کیا کہ 'یہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ اگر انجری یا موت کے واقعات میں حکومت اس کی شرط نہ رکھے تو تفتیش نہیں ہوسکے گی، کونکہ ہم شواہد اپنے پاس جمع کرکے عدالت میں پیش کرتے ہیں'۔
جاوید اوڈھو کے مطابق 'ہمیں سی سی ٹی وی فوٹیج لینے میں وقت لگا جبکہ جناح اسپتال میں جس ڈاکٹر نے بچی کا پوسٹ مارٹم کیا، وہ آخر تک بضد تھیں کہ یہ بڑے ہتھیار کی انجری نہیں ہے'۔
کسی اور کے بچے کے ساتھ ایسا نہ ہو!
پروگرام کے آخر میں مقتول بچی کی والدہ نے کہا کہ 'ہماری امل اب واپس نہیں آنے والی، لیکن میری ایک اور بیٹی بھی ہے اور اس ملک کے دیگر بچے بھی ہیں، میں چاہتی ہوں کہ کسی اور کے ساتھ ایسا نہ ہوا'۔
انہوں نے پولیس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ 'آپ کی بھی پکڑ ہونی چاہیے، یہ نہیں کہ آپ نے وردی پہن رکھی ہے تو آپ کو کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا'۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا، 'میں سوچ رہی ہوں کہ کاش اُس وقت وہاں پولیس نہ ہوتی تو یہ انکاؤنٹر نہ ہوتا اور ہماری امل ہمارے ساتھ ہوتی'۔
دوسری جانب امل کے والد کا کہنا تھا کہ 'زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن جو صورتحال بنی، وہ بہت افسوسناک ہے'۔