Time 17 ستمبر ، 2018
پاکستان

العزیزیہ ریفرنس:جےآئی ٹی رپورٹ کےوالیم 10 سےمتعلق سوال پرنیب پراسیکیوٹرکا اعتراض

سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنسز دائر کیے گئے تھے، جن میں سے ایک میں وہ سزا کاٹ رہے ہیں—فائل فوٹو

اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت آج پھر ہوئی، جہاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پر جرح کے دوران والیم 10 سے متعلق سوال پر پراسیکیوٹر نیب نے اعتراض اٹھا دیا۔

احتساب عدالت نمبر 2 کے جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیراعظم کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اپنی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی وفات کی وجہ سے پیرول پر رہائی کے بعد اس وقت لاہور میں موجود ہیں۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سابق وزیراعظم کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی، جسے منظور کرلیا گیا۔

آج سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے جرح کرتے ہوئے سوال کیا کہ 'جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم 10 رجسٹرار سپریم کورٹ کی موجودگی میں سیل کیا گیا یا پہلےکردیا گیا تھا؟'

واجد ضیاء نے جواب دیا کہ 'آپ ڈیڑھ سال پرانی بات پوچھ رہے، اب مجھے یاد نہیں'۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ 'کیا آپ کے سامنے والیم 10 سیل ہوا؟'

واجد ضیاء نے جواب دیا کہ 'والیم ٹین میرے سامنے سیل کیا گیا، لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ سپریم کورٹ میں ریکارڈ پہنچانے سے پہلے والیم ٹین سیل کیا گیا'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'کسی عدالتی آرڈر شیٹ سے واضح نہیں کہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں والیم ٹین سیل جمع کروایا گیا ہو'۔

والیم 10 سے متعلق سوال پر نیب پراسیکیوٹر کا اعتراض

اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے جے آئی ٹی رپورٹ کے سربمہر والیم ٹین سے متعلق سوالات پر اعتراض اٹھا دیا۔

نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے استدعا کی کہ 'والیم ٹین سپریم کورٹ میں سربمہر صورت میں موجود ہے، خواجہ حارث کو والیم ٹین سے متعلق سوالات کی اجازت نہ دی جائے'۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 'یہ سوال اب جرح میں طے نہیں کیا جا سکتا، اس سے متعلق الگ پٹیشن دائر کی جا سکتی ہے'۔

اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ 'سپریم کورٹ کا وہ آرڈر کہاں ہے جس میں والیم ٹین کو سربمہر کر کے پبلک نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہو؟ '

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 'اگر خواجہ صاحب کو والیم 10 نہ ملنے کا اعتراض تھا تو اس کے حصول کی درخواست دیتے، لیکن اب وہ گواہ سے والیم ٹین سے متعلق سوالات نہیں کر سکتے'۔

خواجہ حارث نے کہا کہ 'گواہ نے دوران جرح ایم ایل ایز کا ذکر کیا اور بتایا کہ باہمی قانونی معاونت کے تحت لکھے گئے خطوط سربمہر والیم ٹین میں ہیں'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'جب جرح میں ذکر آ گیا تو اس سے متعلق میرا سوال بنتا ہے اور اگر کوئی چیز میرے خلاف استعمال ہو رہی ہے تو مجھے اس پر دفاع کا حق حاصل ہے'۔

جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ 'ایم ایل اے اور سپریم کورٹ کا آرڈر دو مختلف چیزیں ہیں'۔

اس موقع پر خواجہ حارث نے کہا کہ 'مجھے سوال کرنے دیں، اگر وہ متعلقہ نہ ہوئے تو آپ حذف کر دینا'۔

پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے بتایا کہ '24 جولائی 2017 کو والیم 10 بائنڈنگ کی شکل میں سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا'۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ 'کیا 10 جولائی کو جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں سماعت فکس ہوئی؟'

اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ 'واجد ضیاء سپریم کورٹ میں اس کارروائی کا حصہ نہیں تھے، لہذا اُن سے اس کارروائی سے متعلق نہیں پوچھا جا سکتا'۔

واجد ضیاء نے کہا کہ 'آپ پھر اس سماعت کی تاریخیں بھی پوچھیں گے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'میں اس کارروائی کا حصہ نہیں تھا، اتنا زیادہ اس سے متعلق یاد نہیں، میرے علم میں صرف اتنا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد سماعت ہوئی'۔

خواجہ حارث نے واجد ضیاء سے سوال کیا کہ 'آپ اس دوران کسی سماعت میں عدالت میں موجود تھے'۔

واجد ضیاء نے جواب دیا کہ 'میرا نہیں خیال کہ میں 10 تاریخ کے بعد کسی سماعت میں گیا'۔

خواجہ حارث نے سوال کیا کہ 'کیا آپ کے علم میں ہے کہ والیم 10 کی ایک کاپی اس سماعت کے دوران مجھے دکھائی گئی؟'

واجد ضیاء نے جواب دیا کہ 'میڈیا پر سنا تھا کہ آپ کو والیم 10 کی کاپی دکھائی گئی'۔

اس موقع پر پراسیکیوٹر نیب نے پھر اعتراض کیا کہ 'واجد ضیاء کہہ چکے ہیں کہ وہ اس سماعت میں نہیں تھے، پھر اس سے متعلق سوال پوچھا جا رہا ہے'۔

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ 'میرا پوائنٹ یہ ہے کہ یہ کہتے ہیں کاپی سیل تھی، لیکن وہ ہمیں دکھائی گئی، کہا گیا تھا کہ آپ کو کاپی چاہیے تو بھلے لے جائیں، لیکن ہم نے کہا تھا کہ ہم نے جو دیکھنا تھا دیکھ لیا، اس لیے والیم 10 کی کاپی واپس کر دی'۔

اس موقع پر احتساب عدالت نے نیب کا اعتراض منظور کرتے ہوئے کہا کہ گواہ جس سماعت میں نہیں تھے، اُس حوالے سے سوال نہیں پوچھا جاسکتا۔

ایم ایل او کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا

سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے 31 مئی 2017 کو سعودی حکام کو لکھا گیا ایم ایل اے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کی۔

تاہم نیب نے مذکورہ ایم ایل اے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے کی مخالفت کر دی۔

جس پر عدالت نے ایم ایل اے کو ریکارڈ کا حصہ بنانے سے متعلق فریقین سے کل دلائل طلب کرلیے۔

سماعت کے بعد احتساب عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت منگل (18 ستمبر) کی صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کردی۔

نیب ریفرنسز کا پس منظر

سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے متعلق ہیں۔

نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔

اس کیس میں احتساب عدالت کی جانب سے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو سزا سنائی جاچکی ہے اور وہ اس وقت جیل میں ہیں۔

واضح رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور دیگر کی سزا معطلی اور بریت کی درخواستوں پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی اپیلیں زیرِسماعت ہیں۔

دوسری جانب العزیزیہ اسٹیل ملز اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے، جو اس وقت زیرِ سماعت ہیں۔

نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔

نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے، جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا تھا جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔

مزید خبریں :