پی ایس ایل میں ناکام 'لاہور قلندرز' نے ابوظہبی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کیسے جیتا؟

لاہور قلندرز کی انتظامیہ نے اپنا فوکس نوجوان کھلاڑیوں اور نئے ٹیلنٹ کی تلاش پر صرف کیا اور عاقب جاوید اور رانا عاطف کی دیوانگی نے اس پروگرام کو تین سال کے مختصر عرصے میں بلندیوں پر پہنچا دیا—۔فائل فوٹو

لاہور قلندرز نے پاکستان سپر لیگ کے تینوں ایڈیشنز میں آخری پوزیشن حاصل کی تھی۔ پی ایس ایل کی سب سے مقبول فرنچائز کے لاکھوں پرستار مایوس تھے کہ اچھے کھلاڑیوں اور بھرپور پلاننگ کے باوجود قسمت لاہور قلندرز کا ساتھ نہ دے سکی۔

پھر لاہور قلندرز نے جب 2016 میں اپنا پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام شروع کیا تو اسے بھی مخالفین 'ناکام شو' اور 'دیوانے کا خواب' قرار دے رہے تھے، لیکن لاہور قلندرز کے ڈائریکٹر عاقب جاوید اور چیف ایگزیکٹو رانا عاطف اور ان کی پروفیشنل ٹیم نے دن رات ایک کیا اور اپنی توانائیاں صرف کرکے نہ صرف مخالفین کو خاموش کرادیا بلکہ یہ پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام ہر سال پہلے سے زیادہ مقبول ہو رہا ہے۔

لاہور قلندرز کی انتظامیہ نے اپنا فوکس نوجوان کھلاڑیوں اور نئے ٹیلنٹ کی تلاش پر صرف کیا اور عاقب جاوید اور رانا عاطف کی دیوانگی نے اس پروگرام کو تین سال کے مختصر عرصے میں بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ابوظہبی میں دنیا کے صف اول کے کھلاڑیوں کی موجودگی میں لاہور قلندرز کو محنت کا صلہ ملا اور اس نے پہلا بڑا انٹرنیشنل کرکٹ ٹورنامنٹ جیت لیا۔

آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، انگلینڈ اور جنوبی افریقا جیسی ٹیموں کی موجودگی میں لاہور کے نوجوانوں نے جو کارکردگی دکھائی اس کی تعریف برائن لارا، بریڈ ہاج اور مہیلا جے وردھنے جیسے عظیم کرکٹر بھی کیے بغیر رہ نہ سکے۔ ان تین سالوں میں سہیل اختر جیسے کھلاڑیوں کی فٹنس پر کام کرکے انہیں قومی کرکٹ سرکٹ میں شامل کیا گیا اور رضا حسن جیسے بھٹکے ہوئے کرکٹرز کو راہ راست پر لاکر اُن کا ٹیلنٹ ضائع ہونے سے بچایا گیا۔ فاسٹ بولر سلمان ارشاد اور حارث رؤف جو اسی پروگرام کے ذریعے سامنے آئے، ایک سال کی محنت اور کوششوں سے دونوں کرکٹرز کے ٹیلنٹ میں نکھار آیا اور انہوں نے ابوظہبی میں دنیا کے مشہور بیٹسمینوں کے سامنے اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔

رانا عاطف کا کہنا ہے کہ پلیئرز ڈیولپمنٹ پروگرام میں ہمارا جنون شامل تھا۔ یہ منصوبہ راتوں رات مکمل نہیں ہوسکتا تھا، اس کے لیے سرمائے  سے زیادہ جذبے اور انتھک محنت کی ضرورت تھی۔ ہم نے کھلاڑیوں کو تلاش کیا۔ ٹیلنٹ دیکھ کر انہیں کنٹریکٹ دیئے۔ باصلاحیت کھلاڑیوں کو بیرون ملک تربیت کے لیے بھیجا گیا، تاکہ ان کا ٹیلنٹ پالش ہو۔کشمیر کی وادیوں، گلگت کے پہاڑوں اور پورے پنجاب سے باصلاحیت کرکٹرز کی تلاش میں ہفتوں لگے، لیکن ہم نے نہ گرمی کی پرواہ کی اور نہ ہی طویل مسافت کو خاطر میں لائے۔ ہمارا جذبہ یہی تھا کہ مقابل نہیں کوئی دور تک، بلکہ بہت دور تک!

رانا عاطف کہتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کرکٹ کے ٹیلنٹ کو پروفیشنل بنانے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیں۔ لاہور قلندرز نے تقریباً 25 سے زائد مقامات پر 5 لاکھ کرکٹرز کے ٹرائلز  لیے۔ ہر سال 150کھلاڑیوں کو شارٹ لسٹ کرکے ان کے درمیان ٹورنامنٹ کرایا گیا اور پھر چند غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک کرکٹرز کو تربیت کے لیے بیرون ملک بھیجا گیا۔ ہر سال ڈیڑھ سو کھلاڑیوں میں سے ایک ٹیم بناکر اسے آسٹریلیا بھیجا گیا۔ یہ ایک منفرد تجربہ تھا جس کی پاکستان کرکٹ میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔

ایک غیر معروف کرکٹر علی مجید کا کہنا ہے کہ 'یہ میرے تصور میں نہیں تھا کہ میں لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سکوں گا'۔ قذافی اسٹیڈیم کو پاکستان کرکٹ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ تاریخی اسٹیڈیم پاکستان کرکٹ کا ہیڈ کوارٹر ہے اور یہاں 1996کے ورلڈ کپ کا فائنل ہوچکا ہے۔ 

باجوڑ کے اسپنر معاذ خان کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ ان کا انتخاب جمرود کے ٹرائلز کے دوران ہوا۔ ان کا کہنا تھا، 'میں کرکٹ کھیلنا چاہتا تھا اور اپنے دادا دادی کے ساتھ رہتا تھا۔ عاقب جاوید اور رانا فواد نے مجھے میرے خواب کی تعبیر دی'۔

لاہور قلندرز کے اس پروگرام نے کھلاڑیوں کی زندگیوں کو تبدیل کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ حارث رؤف 2 سال پہلے پارٹ ٹائم سیلزمین تھا لیکن اب اس کی زندگی میں تبدیلی آرہی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے عظیم بیٹسمین برائن لارا اور سری لنکا کے سابق کپتان مہیلا جے وردھنے کہتے ہیں کہ پاکستان میں حارث رؤف کی شکل میں ایک ایسا غیر معمولی صلاحیتوں والا فاسٹ بولر موجود ہے، جس نے ابوظہبی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں اپنی بولنگ سے سب کو حیران کردیا۔

دوسری جانب لارا اور جے وردھنے کا ماننا ہے کہ حارث اور شاہین شاہ آفریدی جیسے بولرز نے لاہور قلندر کو ٹورنامنٹ جتوانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ حارث کا تعلق اسلام آباد سے ہے اور ایک سال پہلے یہ بولر ٹیپ ٹینس بال سے بولنگ کرتا تھا لیکن ایک سال میں حارث نےہارڈ بال سے بولنگ شروع کی۔اس گیند سے بھی وہ 145 کی رفتار سے بولنگ کرتے ہوئے بیٹسمینوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔

برائن لارا نے کہا کہ حارث نے اگر اسی رفتار سے بولنگ جاری رکھی تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ ورلڈ کلاس بولرز کی صف میں شامل ہوجائے۔ حارث رؤف کےچار اوورز کے اسپیل کی وجہ سے ابوظہبی ٹی ٹوئنٹی کپ کا ٹائٹل پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز لاہور قلندرز نے جیتا۔ فائنل میں لاہور قلندرز نے جنوبی افریقا ملٹی پلائی ٹائٹنز کو 15 رنز سے ہرایا۔ ٹائیٹنز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرنے والے تین کھلاڑی موجود تھے۔

لاہور قلندرز کے سی ای او رانا عاطف کا کہنا ہے کہ ہم نے حارث کا ٹیلنٹ دیکھتے ہوئے اسے 10 سال کا معاہدہ دیا۔گذشتہ سال حارث کو آسٹریلیا بھیجا۔ وہ پریکٹس کے دوران 145 سے 150کی رفتار سے بولنگ کرتا ہے۔ عاقب جاوید ان کے ٹیلنٹ کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

لاہور قلندرز کے چیف آپریٹنگ آفیسر رانا ثمین کے مطابق یہ پروگرام ہر ایک کے لیے تھا۔گلیوں میں کھیلنے والا کوئی بھی کرکٹر اس میں قسمت آزما کر چند ماہ میں سپر اسٹار بن سکتا تھا۔ اس منصوبے سے کھلاڑیوں کو پروفیشنل کرکٹر بننے کے لیے پہلی سیڑھی فراہم کی گئی۔ 

عاقب جاوید پُر امید ہیں کہ اس پروگرام کے اثرات جلد پاکستان کرکٹ میں دکھائی دیں گے۔ ان کا کہنا ہے، ہم نے اس مشن کو مکمل کرنے کے لیے تین سال میں سخت محنت کی ہے۔ حارث جیسے کھلاڑی چند سال کی محنت کے بعد شعیب اختر کا عالمی ریکارڈ توڑ سکتے ہیں۔ اس سال محمد فیضان، فرزان راجا، ماجد علی اور معاذ خان جیسے کھلاڑی سامنے آئے ہیں اور ان میں سے چند باصلاحیت کھلاڑی پاکستان سپر لیگ میں بھی ایکشن میں ہوں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔