بلاگ
Time 26 اکتوبر ، 2018

اوریجنل ’کوکو کورینا‘ سے نیا ’کوک کو روکنا‘ زیادہ کامیاب؟

— فوٹو:فائل 

ارے احد رضا میر یہ تم نے کیا کیا؟ اتنی سی عمر میں بگ بی والا کام کرلیا؟ امیتابھ بچن بھی اپنے چیلنج میں بری طرح فیل ہوئے لیکن تم؟ یہ کیا آ پ بھی ان سوالات سے چونک گئے۔ 

ارے رکیے! اگر یہ سوالات آپ کو شکنجے میں کَسنے کیلئے ہے تو آپ غلط سمجھے کیوں کہ اگر یہ تحریر سوشل میڈیا پر پھیلانے یا وائرل کرنے کیلئے لکھی جاتی تو میں اپنا” بلاگ“ کچھ اس طرح شروع کرتا۔

”احد نے” کوکو کورینا “کا ستیا ناس کردیا، احد نے گانے کا بیڑہ غرق کردیا، احد نے وحید مراد اور احمدرشدی کی روح کو جھنجوڑ دیا یا پھر ایسے  احد نے ہمیں پیسے دیے ہیں یہ بلاگ لکھنے کیلئے، ہمارے پاس ان کے واٹس ایپ پر بھیجے گئے پیغام محفوظ ہیں، ’یا‘  کیوں گایا یہ گانا کس کیلئے گایا یہ گانا کس نے گوایا یہ گانا“ یا اس سے بھی بڑھ کر ’کوئی اخلاقیات ہوتی ہے کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے‘۔

یقین مانیں اس طرح یہ تحریر پڑھی بھی زیادہ جاتی اور پھیلائی بھی زیادہ جاتی اور یہاں تک کے پسند بھی بہت کی جاتی کیونکہ ہم سب میں سے زیادہ تر ”نیگیٹو“ ہیں یہاں کسی ” اڑانے والے اینکر“ کو بھی بڑا ”نڈر“ اور”بہادر“ اور یہاں تک کے ”صحافی“ بھی سمجھ لیا جاتا ہے۔

چاکلیٹی ہیرو وحید مراد گیت پر پرفارم کرتے ہوئے — فوٹو:سوشل میڈیا 

ہم اتنے” نیگیٹو“ ہیں کہ کسی کی تعریف کرنے والے کو فوراً ”ویٹ لفٹنگ“ کا کھلاڑی کہہ کر اس کی ”ٹارگٹ کلنگ“ کردیتے ہیں۔ کسی کے بھی ”دیوانے“ کو کوئی ایک ”پتھر“ مارے اس کے بعد پتھر مارنے والوں کی لائن لگ جاتی ہے۔

کبھی لوگ اپنا ”ہاتھ“ کھولنے کیلئے انتظار کرتے تھے کہ کوئی بس میں یا جھگڑے میں کوئی پِٹتا ہوا دیکھ جائے بس سب اسی پر اپنا ”زور“ آزمانا شروع کردیتے تھے۔  

اب ایسا ہی کچھ سوشل میڈیا پر ہوتا ہے کسی کے بس تیلی لگانے کا انتظار ہوتا ہے اور پِھر پُھر” پِھر پُھر“۔

جن کو لوگ جانتے نہیں وہ تو چاہے کچھ بھی کہتے رہے کیونکہ ”کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا“ لیکن جن کو لوگ جانتے ہیں وہ خود کسی منصب پر بھی ہوں تو انھیں الفاظ چن کر تنقید کرنی چاہیے خاص طور پر وہ لوگ جو نہ صرف خود اس طرح کے الفاظ کا ”نشانہ“ بن کر ان پر پوری قوم کے سامنے احتجاج بھی کرچکے ہیں بلکہ نشانہ بنانے والوں سے معافی بھی منگواچکے ہیں۔

گیت کے دوران گلوکارہ— فوٹو:سوشل میڈیا 

اچھا خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ نیا ” کوکو کورینا“ پرانے والے ”کوکوکورینا “سے بہتر نہیں تھا لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ بہتر ہو بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ کبھی بھی کوئی ریمکس یا ری میک اپنے ”پاپولر کلاسک اوریجنل“ سے بہتر سمجھا بھی نہیں جاسکتا۔

ہاں ریمیک یا ریمکس اپنے دور میں اپنے ”چینلز“ پر اپنے اوریجنل سے زیادہ ”کامیاب“ یا ” پاپولر “ ہوسکتا ہے۔ اس کی مثال امیتابھ بچن کی ’ڈان‘ اور دلیپ کمار کی ’دیوداس‘ سے لی جاسکتی ہے جن کے شاہ رخ والے ” ری میک“ اپنے دور میں اوریجنل سے زیادہ دیکھے گئے اور پاپولر بھی ہوئے اور شاید لاکھوں کروڑوں کیلئے ’دیوداس‘ اور ’ڈان‘ صرف شاہ رخ خان ہی ہو۔

دوسری طرف ایسے بھی ری میک اور ری مکس ہیں جو نہ صرف ناکام ہوئے بلکہ تباہی میں اپنی مثال آپ ہیں جیسے دنیا کے سب سے بڑے سپر اسٹار امیتابھ بچن ”گبر“ یعنی”ببن“ بن کر ناکام ہوئے۔ 

پچاس سال سے اب تک فلم انڈسٹری پر راج کرنے والے بالی وڈ کے سب سے بڑے سپر اسٹار نے اپنے سے بھی بڑے کردار”گبر سنگھ“کو رام گوپال ورما کی آگ میں ادا کیا اور ناکام ہوئے اس کردار کو ادا کرنے کیلئے ”سرکار“ نے تیس سال سے زیادہ انتظار کیا اور جب ادا کیا تب وہ رسک لے سکتے تھے انھوں نے خطرہ لیا اور اس ناکامی کے بعد ”پا، پیکو اور پنک“ جیسی کلاسک اور کامیاب فلمیں دیں۔

احد رضا میرتو ”رسک“ لینے میں امیتابھ بچن سے بھی آگے نکلے اور غالباً پاکستان کے سب سے ”مشہور“ فلمی گانے پر اپنا ”سُر“ آزما بیٹھے بس پھر کیا تو کچھ کو گانا پسند آیا کچھ کو پسند نہیں آیا لیکن سوشل میڈیا پر ایک ”کلاس“ چھوٹا بڑا جو ہاتھ میں آیا پتھر لے کر نکل پڑی اور انھوں نے احد اور مومنہ پر برسادیے۔


بات یہیں ختم نہیں ہوئی وحید مراد کے صاحبزادے نے سوشل میڈیا پر آکر اس گانے (کو کو کورینا) کے حقوق ”کوک اسٹوڈیو“ کو دینے پر وحید مراد کے تمام پرستاروں سے معذرت کی اور اس گانے کو ریمکس کرنے والوں کو احمق بھی کہہ دیا، پھر اچانک یہ بھی کہا کہ ایک لڑکا اچھا ایکٹر ہے تو اسکو کرکٹ ٹیم، ہاکی ٹیم اور اولمپکس میں جمناسٹک میں بھی ڈال دو۔


اتنی ساری باتیں سوشل میڈیا پر کہنے والے عادل مراد نے البتہ یہ نہیں بتایا کیا کوک اسٹوڈیو نے ان سے حقوق گن پوائنٹ پر لیے تھے؟ کن شرائط پر لیے تھے؟ کیا وہ شرائط عادل مراد نے پڑھی تھی؟ کیا عادل مراد نے اپنے ایکٹنگ ٹیلنٹ پر بھی سپر اسٹار وحید مراد کے پرستاروں سے اسی طرح معافی مانگی تھی؟

خیر عادل مراد کے جوابات کا تو انتظار رہے گا لیکن یہ بات کوئی بھی اگر بتاسکتاہے کہ کوئی ہے جو اس گانے کو وحید مراد سے اچھا پکچرائز اور احمد رشدی صاحب سے اچھا گاسکتا ہے ( ظاہر ہے موسیقار سہیل رعنا، شاعر مسرور انور اور ڈائریکٹر پرویز ملک کی جادوگری الگ ہے ) تو بتادے۔ 

— فوٹو: سوشل میڈیا 

یہ گانا اس سے پہلے بھی کئی بار ری مکس یا دوبارہ گایا چکا ہے جن میں عالمگیر کا ری مکس سب سے زیادہ مشہور ہے باقی ایک بار جیو کے پروگرام کیلئے یہ گانا سہیل رعنا کی رہنمائی میں علی حیدر، امانت علی اور احمد جہانزیب نے پرفارم کیا تھا اس کے بعد جیو پر ہی پیش ہونے والی فلم ارمان کے ریمیک ( فواد خان اور آمنہ شیخ) میں بھی اسے ری مکس کرکے پیش کیا گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اب گانوں کی مقبولیت کے سب سے بڑے چینل ”یو ٹیوب“ پر احد اور مومنہ کا یہ کوک اسٹوڈیو والا ”کوکوکرینا“ اپنے ”اوریجنل“ کی نسبت کئی گنا زیادہ دیکھا اور سنا گیا ہے۔ ابھی اس یو ٹیوب پر دونوں کے درمیان فرق لاکھوں کا ہے کچھ مہینوں میں شاید کروڑوں کا ہوجائے۔

ظاہر ہے یو ٹیوب گانوں کی مقبولیت جانچنے کا واحد پیمانہ نہیں لیکن موجودہ دور کا سب سے بڑا اور قابل اعتبار پیمانہ ہے اور اسی کا نام شاید تبدیلی ہے ساحر لدھیانوی نے کیا خوب کہا ”مجھ سے پہلے کتنے شاعر آئے اور آکر چلے گئے ،کچھ آہیں بھر کرلوٹ گئے، کچھ نغمے گا کر چلے گئے، وہ بھی ایک پل کا قصہ تھے میں بھی ایک پل کا قصہ ہوں، کل تم سے جدا ہوجاؤں گا ، گو آج تمھارا حصہ ہوں“۔

کبھی کبھی کے اسی ’کلاسک‘ پر یاد آیا امیتابھ بچن تو ”کبھی کبھی“ کے رمکس کا بھی ”حصہ“ بن گئے وہ بھی کامیابی سے۔

اب یہ نیا ’کوکو کورینا‘ کتنا کامیاب ہے یا کتنا ناکام اس کا فیصلہ اس کو اوریجنل کے مقابلے میں کھڑا کرکے نہیں کیا جاسکتا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر اس کو کو کورینا نے اپنے اوریجنل کے پانچ فیصد کا بھی حق ادا کردیا ہے تو یہ اس گانے کی کامیابی کہلائے گی۔

گلوکارہ مومنہ مستحسن کا ایک انداز — فوٹو: انسٹاگرام 

فی الحال اس ویڈیو کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اسے صرف چھ دن میں یو ٹیوب پر 27 لاکھ سے زائد بار دیکھا جاچکا ہے، دوسری طرف اس گانے کو صرف 50 ہزار لوگوں نے لائک کیا لیکن ایک لاکھ 30ہزار لوگوں نے ڈس لائک کیا۔ صرف ان اعداد و شمار سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ویڈیو دیکھنے والے چالیس فیصد لوگوں نے اس گانے کو پسند بھی کیا ہے۔

احد نے اس گانے کو مکمل محسوس کرکے گایا بھی اور پرفارم کیا مومنہ نے ان کا ساتھ دیا لیکن یہ گانا احد رضا میر کیلئے ہی یاد رکھا جائے گا۔ احد نے گانے کو اردو کے مَن اور انگلش کے فَن سے گایا ان کے ”نازک“ اور ”اتا پتا معلوم نہیں“ کہنے کا اسٹائل بھی ہٹ کر تھا۔

یہ گانا ان کی طرف سے سب گانے اور بنانے والوں کی طرف سے وحید مراد، احمد رشدی، سہیل رعنا، مسرور انور اور پرویز ملک سمیت اس فلم سے جڑے اور اس گانے کے پرستاروں کیلئے ٹری بیوٹ تھا۔

اداکار احد رضا میر کا گلوکاری کے دوران کا ایک منظر — فوٹو: انسٹاگرام 

وہ اس گانے کی میکنگ میں کہہ بھی چکے کہ اس کوشش کی وجہ سے نئی نسل اس گانے کو سنے گی اور اس کوشش میں احد سمیت پوری ٹیم سو فیصد کامیاب رہے۔ ہم تو اس گانے کو احد کی خوش نصیبی ہی کہیں گے کہ انھیں پہلا ڈرامہ سیریز سپر ہٹ ملا پھر ان کی فلم غیر روایتی لو اسٹوری ہونے کے باوجود بہت بڑی سر پرائز ہٹ ثابت ہوئی اور اب ان کے گانے کو جو پسند کر رہا ہے وہ بھی دیکھ رہا ہے جو پسند نہیں کر رہا شاید وہ زیادہ دیکھ کر اس پر”تان سین“ بن کر تبصرے بھی کر رہا ہے۔

اتفاقاً ”تان سین “ کا کردار آصف رضا میر ٹی وی پر ادا کرچکے ہیں جو احد کے والد بھی ہیں اور ’تنہائیاں‘ اور ’سمندر‘ سمیت کئی ڈراموں کے سپر اسٹار بھی اور پروڈیوسر بھی۔

غالباً ”تان سین“ ہی وہ ڈرامہ تھا جس کے بعد انھوں نے ایک لمبا بریک لیا تھا۔ 

آصف رضا میر فلموں میں البتہ کامیاب نہیں ہوسکے تھے، ان کا ایک انٹرویو میں یہ کہنا تھا کہ ہر چیز پر”ری ایکٹ“ نہ کرنے کی عادت کی وجہ سے غصہ پر قابو پایا جاسکتا ہے ۔

احد رضا میر نے اس گانے کی ویڈیو کی میکنگ میں یہ بھی کہا کہ یہ گانا اتنا مقبول ہے کہ وہ شروع میں تھوڑا سا ”ڈر“ رہے تھے لیکن بعد میں انھوں نے ”کوشش“، ٹیم اور ساتھیوں کی مدد سے اپنے اس”ڈر“ پر قابو پایا اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ ”ڈر کے آگے جیت ہے“۔

اچھا ہے احد ڈرے نہیں انھوں نے اس گانے کو بھی ”آگے“ ہی بڑھایا ہے، احد نے وحید مراد اور احمد رشدی جیسے عظیم اداکار اور گلوکار کا سب سے مقبول گانا گانے کی کوشش کی اور پوری کی، باقی آرٹ ہو یا سائنس یا پھر کھیل ناکامی یا کسی کے ردعمل سے ڈرنا کیسا؟

سوشل میڈیا تو ہے ہی فوری رد عمل کا نام، آپ کو سب کا ری ایکشن جلدی اور سب کے سامنے مل جاتا ہے لیکن یہاں بھی نفرت محبت کی نسبت آگ کی طرح تیزی سے پھیلتی ہے اور سب کو لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

اب ری ایکشن پر ری ایکشن احد کی طرف سے بھی ہے اور مومنہ کی طرف سے بھی، عوام کی طرف سے بھی اور خواص میں چھپے عام آدمی سے بھی۔ اچھی بات یہ ہے کہ تنقید سے چھپا بھی نہیں جارہا اور نفرت کے جواب کیلئے نفرت کا ہتھیار استعمال بھی نہیں کیا جارہا۔

”مجھے جینے دو“ کے بجائے ”جیو اور جینے دو “ کا جواب ہمارے خیال میں زیادہ بہتر بھی ہے باقی سب جانتے ہیں کہ ” کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا‘‘۔

نوٹ:

1۔۔ ہر فلم، ڈرامہ، گانا، ویڈیو بنانے والا یا اس میں کام کرنے والا اس پر باتیں بنانے والے سے بہتر ہوتا ہے۔

2 ۔۔ یہ سارا تبصرہ ، تجزیہ، رائے یا اظہار ایک فرد واحد کی رائے ہے جو کسی بھی زاویے سے غلط ، صحیح یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے ۔

3۔۔ غلطیاں ہم سے، آپ سے ، سب سے ہوسکتی ہیں، آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی کریں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔