29 اکتوبر ، 2018
دبئی: جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے ماسٹر مائنڈ اومنی گروپ کے سابق چیف فنانس آفیسر اسلم مسعود وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو سب کچھ بتانے کو تیار ہیں۔
جیو نیوز نے جدہ کے اسپتال میں زیر علاج اسلم مسعود سے ان کے بھائی کے توسط سے رابطہ کیا جس پر ان کا بتانا تھا کہ اومنی گروپ میں کیا کیا ہوتا رہا اس حوالے سے انہیں بہت کچھ معلوم ہے۔
اسلم مسعود کا کہنا ہے کہ وہ ایف آئی اے سے تعاون کو تیار ہیں لیکن انہیں پاکستان نہ لے جایا جائے بلکہ ایف آئی اے کی ٹیم ان کا بیان جدہ ہی میں لے لے۔
اسلم مسعود کے مطابق اومنی گروپ کیس میں طاقتور لوگ ملوث ہیں جن سے ان کی جان کو خطرہ ہے جب کہ اس کیس میں انہیں قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے۔
اومنی گروپ کے سابق چیف فنانس آفیسر کا کہنا تھا کہ اومنی گروپ کا بانی رکن ہوں، بطور اکاؤنٹنٹ گروپ جوائن کیا، ترقی کرتے کرتے چیف فنانشل آفیسر بنا اور 2015 میں مستعفی ہوا۔
اسلم مسعود کا کہنا ہے کہ انہیں اکاؤنٹ کھولنے کا اور نہ ہی چیک سائن کرنے کا اختیار تھا، چیک مجھ سے ہوکر جاتے اور میرا کام تصدیق کرنا تھا۔
اسلم مسعود کے مطابق اومنی گروپ سے استعفی دینے کے باوجود بانی رکن ہونے کے ناطے ابھی تک تنخواہ مل رہی تھی اور ان دنوں دبئی میں بیٹے کے کاروبار کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔
یاد رہے کہ ایف آئی اے نے اسلم مسعود کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطہ کیا تھا جس کے بعد انٹرپول نے 22 اکتوبر کو لندن سے جدہ پہنچنے پر انہیں حراست میں لے لیا تھا۔
جعلی بینک اکاؤنٹس کا پس منظر
ایف آئی اے حکام نے جیو نیوز کو بتایا کہ منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔
مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔
ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔
دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔
ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔
تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔
حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔
ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔
حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔