بلاگ
Time 21 نومبر ، 2018

جشن ولادت رسول ﷺ— یہ امت روایات میں کھو گئی!

آج سے 15 سے 20 سال قبل نبی کریم ﷺ کی ولادت کے جشن میں یہ تمام چیزیں نہیں تھیں جو آج نظر آتی ہیں—۔فائل فوٹو/ بشکریہ سوشل میڈیا

دعوت اسلامی کے امیر مولانا الیاس قادری گزشتہ 3 دہائیوں سے زائد عرصے سے عشق رسول ﷺ کا درس دیتے آئے ہیں، انہوں نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں دعوت اسلامی کی بنیاد رکھی، جو اب دنیا کے کئی ممالک میں پھیل چکی ہے اور ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بھی لاکھوں میں ہے۔

چند روز قبل سادہ طبیعت اور انتہائی شائستہ مزاج کے حامل مولانا قادری کی ایک ویڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں انہیں کہتے سنا کہ میلاد کی خوشی یا جشن اس طرح نہ منایا جائے کہ سڑکیں بند کردی جائیں، سڑکوں پر گڑھے کھود دیئے جائیں یا ایکو ساؤنڈ پر تیز آواز میں نعتیں چلائی جائیں، یہ تمام کام تفریح تو ہوسکتے ہیں لیکن ان سے ثواب کی امید نہ رکھی جائے۔ مولانا قادری نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ جشن ولادت کی تائید کرتے ہیں لیکن وہ ایسا ہو کہ جس سے مسلمان کے دل اور جسم کو راحت پہنچے۔

ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، مولانا کو عشق رسول ﷺ کا درس دیتے ہی سنا ہے لیکن اس مرتبہ یہ جملہ سن کر زیادہ حیرت نہیں ہوئی کہ وہ خود اپنے عقیدت مندوں کو کہہ رہے تھے کہ چراغاں ضرور کریں، جشن ضرور منائیں لیکن اس سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے، حقوق العباد کا خیال رکھیں، راستے نہ روکیں اور لوگوں کی نیندیں خراب نہ کریں۔ شاید انہیں شدت سے احساس ہوگیا ہے کہ امت غلط راہ پر چل پڑی ہے، کیونکہ جس نبی کی ولادت کے جشن کا وہ درس دیتے چلے آئے ہیں ان کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ پہلے حقوق العباد کا خیال رکھا جائے، اپنی ذات سے کسی کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور اپنے ہر فعل کو جانچا جائے کہ کہیں کسی کو ایذا تو نہیں پہنچ رہی۔

آج جشن ولادت کے نام پر منائے جانے والے جشن سے اس کی اصل روح نکل چکی ہے، جشن کا مطلب شاید یہی لے لیا گیا ہے کہ گلیوں، محلوں اور گھروں کو روشن کردیا جائے، سبز جھنڈے لہرا دیئے جائیں، سینوں پر نعلین پاک کی شبیہ والے بیجز لگا دیئے جائیں اور موٹرسائیکل یا گاڑیوں میں بیٹھ کر سڑکوں پر نکلا جائے اور جلوس کی شکل میں گلی گلی گشت کیا جائے، ان تمام چیزوں کا تعلق اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل سے تو ہوسکتا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی کے حصول کا اس سے کوئی تعلق نہیں، نبیﷺ کی خوشنودی صرف اور صرف ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے۔

معاشرے میں جس تیزی سے مذہبی تعلیمات کو لوگ اپنی تفریح کا ذریعہ بنا رہے ہیں، اس سے دین اسلام کی اصل روح کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ سادہ لوح عوام یہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ گھروں پر چراغاں کرنے اور جھنڈے لہرانے سے عشق کا اظہار ہوتا ہے، اتنے دکھ کی بات ہے کہ اندھی تقلید میں میلاد النبیﷺ کا جشن منانے کے لیے کیک کاٹے جاتے ہیں جن پر رسول اللہ ﷺ کا مبارک نام لکھ کر یا روضہ رسول ﷺ کی شبیہہ بنا کر اُسی پر چھری چلائی جاتی ہے، ہم ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ آخر ہم اس انداز سے کس ہستی کی ولادت کا جشن منا رہے ہیں۔

اور تو اور بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کے ماڈل بنا کر انہیں گلی گلی گھمایا جاتا ہے، میں نے اپنی آنکھوں سے تو نہیں دیکھا البتہ دوستوں سے ضرور سنا ہے کہ بیت اللہ کے ماڈل کے گرد لوگ علامتی طواف بھی کیا کرتے ہیں اور ایسا چند سال قبل سے ہو رہا ہے۔

نبی کریم ﷺ کی شخصیت نہ صرف امت مسلمہ بلکہ اقوام عالم کے لیے بھی بہترین نمونہ ہے، اس لیے ان کی ولادت کا جشن بھی ان کے شایان شان ہونا چاہیے۔ کیا سڑکیں بند کرکے اور لوگوں کو تکلیف میں ڈال کر جشن منانے کو شایان شان کہا جاسکتا ہے، شاید یہی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے مولانا الیاس قادری کہنے پر مجبور ہوئے کہ خدارا اس طرح کے جشن سے ثواب کی توقع نہ رکھی جائے، یہ سیر و تفریح کا سامان تو ہوسکتا ہے کہ لیکن نبی ﷺ کی ولادت کا جشن ہرگز نہیں ہوسکتا۔

آج سے 15 سے 20 سال قبل نبی کریم ﷺ کی ولادت کے جشن میں یہ تمام چیزیں نہیں تھیں جو آج ہیں، اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وقت کے ساتھ جشن کی نوعیت میں بھی جدت آگئی ہے بلکہ لوگوں نے دنیا کی سب سے قابل احترام شخصیت کی ولادت کے جشن میں اپنی ذاتی خواہشات کو شامل کرلیا ہے اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ اگلے 10 سال بعد مزید کیا خرابیاں سامنے آنے والی ہیں، اس لیے مزید خرابیوں سے قبل ان کے سامنے بندھ باندھنے کی ضرورت ہے جس میں قابل احترام علماء کرام سب سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

مولانا الیاس قادری اپنے عقیدت مندوں کو فرما چکے ہیں کہ وہ جشن کے نام پر لوگوں کو تکلیف پہنچانے کا ذریعہ نہ بنیں، اسی طرح دیگر علما کرام کو بھی آگے بڑھ کر اپنی توانا آواز سے اپنے عقیدت مندوں اور سادہ لوح لوگوں کو سمجھانا ہوگا کہ دنیا کی عظیم ہستی کی ولادت کے جشن کو خرافات سے دور رکھا جائے۔

مقصد اگر نبی آخرالزماں ﷺ کی ولادت کا جشن منانا ہی ہے تو اس کے اور بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں جیسا کہ یہ کہ ملک کے تمام مکاتب فکر کی قابل احترام شخصیات ایک جگہ جمع ہوں اور نبی ﷺ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالیں۔ ان کی تعلیمات، میل جول، لین دین اور رہن سہن سے متعلق لوگوں کو آگاہ کریں۔

جشن ولادت منانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ اپنے اہلخانہ، قریبی عزیز و اقارب، غریب نادار لوگوں میں تحائف تقسیم کریں، ان سے میل جول بڑھائیں، غریبوں کے لیے کھانے کا اہتمام کریں، ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کریں، خصوصی طور پر بیماروں کی عیادت کو پہنچیں، یہ تمام کام وہ ہیں جو نبیﷺ کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہیں، انہیں زندگی بھر کرنے کی ضرورت ہے اور جشن ولادت کے موقع پر اس کا خصوصی اہتمام کرنا ہی اصل جشن ہوسکتا ہے ورنہ ہمارے کیے گئے کام سیر و تفریح کے سوا کچھ نہیں۔

اقبال نے شاید اسی موقع کے لیے کہا تھا؎

حقیقت خرافات میں کھو گئی

 یہ امت روایات میں کھو گئی


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔