بلاگ
Time 30 نومبر ، 2018

پرانا لاہور، نیا لاہور

لاہور کو نیا کرنے کے لیے زور و شور سے قلعی کا کام کیا جارہا ہے—۔فائل فوٹو

پرانی زبان میں کہیں تو آج کل ہر خاص و عام میں 'نیا پاکستان' اور 'پرانا پاکستان' موضوع بحث ہے اور اگر نئی زبان میں کہیں تو یہ 'ٹرینڈ وائرل' ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت تو کہتی ہے کہ 'نیا پاکستان' بنا کر دکھائیں گے جبکہ اپوزیشن کہتی چلی آ رہی ہے کہ ہمیں 'پرانا پاکستان' ہی پیارا ہے اور وہ ہی نظر آرہا ہے۔حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے نظر آئے کہ نیا پاکستان بنانے کے لیے مزید 100 دن اور لے لیں مگر وہی پرانا پاکستان ہی رہے گا۔

نئے اور پرانے پاکستان کا ذکر جگہ جگہ ہوتا دیکھ کر مجھے معلوم نہیں کیوں گزرے وقتوں کا ایک گانا یاد آتا ہے، جو عوام میں بہت مشہور ہوا تھا۔

پانڈے قلعی کرا لو

پرانے نوے کرا لو

میرا تعلق لاہور سے ہے تو میں لاہور کی حد تک تو کہہ سکتا ہوں کہ پرانے اور نئے لاہور میں مجھے بہت واضح فرق نظر آرہا ہے۔ لاہور کو نیا کرنے کے لیے زور و شور سے قلعی کا کام کیا جارہا ہے۔ نئے لاہور سے تجاوزات کا خاتمہ کرنے کے بعد اب پرانے لاہور سے ناجائز تعمیرات اور قبضہ مافیا کی صفائی کا کام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جاری ہے لیکن یہ کام عدلیہ کے احکامات کے بعد شروع کیا گیا۔

نئے لاہور میں دیکھیں تو سڑکیں بین الاقوامی معیار کے مطابق بنائی گئی ہیں، جرائم اور ٹریفک کنٹرول کرنے کے لیے معیاری سی سی ٹی وی کیمرے نصب کردیئے گئے ہیں اور مزید کیے جارہے ہیں۔ کوئی شخص ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرے تو نئے لاہور میں اس کا قانون کے چنگل سے بچ نکلنا مشکل ہوگیا ہے۔ تجاوزات کا خاتمہ کرکے جیل روڈ اور مین بلیوارڈ گلبرگ کو سگنل فری کوریڈور بنادیا گیا ہے اور دھول مٹی اور دھواں بھی بہت کم ہے۔

تاہم پرانے لاہور میں کچھ نیا کرنے کی کوشش سرے سے کی ہی نہیں گئی۔ اندرون شہر کی تنگ گلیاں تجاوزات کے بعد مزید سکڑ کر گزرنے کے لائق ہی نہیں رہیں۔ بقول معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی مرحوم، 'اندرون لاہور کی گلیوں سے گزرتے ہوئے مرد اور عورت کے درمیان بس نکاح کی گنجائش بچتی ہے'۔

تجاوزات کے ساتھ ساتھ تانگے اور چنگ چی بھی لوگوں کا پیدل چلنا دوبھر کردیتے ہیں اور پندرہ منٹ کا سفر چالیس منٹ اور کبھی کبھی تو ایک ایک گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ اگر کوئی غلطی سے اپنی گاڑی میں چلا جائے تو شاید ہی بغیر کسی رگڑ کا نشان سجائے صاف ستھری حالت میں کار واپس لا سکے۔

اگر آسانی کے لیے موٹر سائیکل پر چلے جائیں تو چہرے اور کپڑوں پر اتنی دھول پڑتی ہے کہ واپس آکر آئینے میں اپنا آپ بھوت دکھائی دیتا ہے۔ اندرون لاہور کی کسی سڑک یا گلی میں نکل جائیں تو پتھارے، ناجائز تعمیرات، غیر قانونی موٹر سائیکل اور کار پارکنگ جگہ جگہ راستہ روک دیتی ہے ۔ پرانے لاہور کی شان میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ 'اونٹ رے اونٹ، تیری کون سی کَل سیدھی'۔

لاہور ہائیکورٹ نے تجاوزات ہٹانے کا حکم دیا تو حکومتی مشینری نے کارروائی شروع کی اور آج نئے لاہور میں تجاوزات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ماضی میں یہاں سرکاری اور عام شہریوں کی زمینوں پر قبضے کیے گئے اور قبضہ مافیہ نے غیر قانونی طور پر یہ اراضی فروخت کرکے اربوں روپے کمائے۔

تجاوزات کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے سرکاری زمینوں پر سے تو قبضے ختم کرائے جارہے ہیں لیکن عام شہریوں کی اراضی اور خاص طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی زمینوں پر قابضین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی۔

عدالت کے حکم پر پرانے لاہور میں لگے اشتہاری بورڈ اور دیگر رکاوٹیں ہٹائے جانے کے بعد قدیم عمارتوں کا حسن ابھر کر سامنے آیا تو دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ گئے۔ تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری ہے اور جو دکان 10 فٹ کی تھی اور اس کے آگے 16 فٹ قبضہ کرکے تعمیرات قائم کی گئی تھیں، انہیں گرایا جا رہا ہے۔ اب مال روڈ، ہال روڈ، شاہ عالم مارکیٹ اور اس سے ملحقہ علاقوں سے ناجائز قبضہ ختم کرایا جا رہا ہے۔

تجاوزات کے علاوہ اندرون لاہور میں چھوٹی بڑی سڑکوں پر قائم غیر قانونی پارکنگ اسٹینڈز بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ ان اسٹینڈز نے 50 فٹ چوڑی سڑک کو صرف 30 فٹ پر محیط کر دیا ہے۔ غیرقانونی کار اور موٹر سائیکل اسٹینڈز بھی تجاوزات کے زمرے میں آتے ہیں اور پنجاب حکومت کو چاہیے کہ اس کاروبار کو ختم کرنے پر بھی توجہ دے۔ ساتھ ہی تجاوزات کے دوبارہ قائم نہ ہونے کو بھی یقینی بنایا جائے اور قبضہ مافیا کو گرفتار کرکے ایسی سزا دے کہ دوبارہ کسی کی جرات نہ ہوسکے۔

لیکن اس تمام آپریشن پر انگلیاں بھی اٹھنی شروع ہوگئی ہیں کیونکہ جس جگہ سے تجاوزات ہٹائی جارہی ہیں وہاں قبضہ مافیا پھر سرگرم ہو رہی ہے اور پتھارے لگائے جا رہے ہیں۔ اس مسئلے کے حل کا دارومدار حکومت کے اپنی رِٹ قائم رکھنے کی صلاحیت پر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت قبضہ گروپ کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا یہ بھی ماضی کی طرح دکھاوے کا آپریشن ہی رہے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔