بلاگ
Time 07 دسمبر ، 2018

کرتارپور راہداری منصوبہ اور پاک بھارت تعلقات، کیا کھویا، کیا پایا؟

سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کی آخری آرام گاہ گوردوارہ دربار صاحب—۔فائل فوٹو/ جیو نیوز

پاک بھارت تعلقات کی نئی شروعات کی خواہش اور سکھوں کے اہم ترین مذہبی مرکز کرتار پور گوردوارے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے پاکستان نے بھارت سے کئی قدم آگے بڑھ کر راہ داری کو کھولنے کی بات کی، یہ وہ منصوبہ ہے جس سے سکھ برادری کے مذہبی جذبات جڑے ہوئے ہیں۔

اگلے سال بابا گرونانک کی پانچ سو پچاسویں برسی ہے۔ امید ہے کہ بھارتی سکھ برادری کرتار پور راہ داری کی ویزہ فری سہولت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے مقدس ترین گوردوارے میں مذہبی رسومات ادا کرسکے گی۔ پاکستان نے پہلے بھی کئی بار اس راہ داری کے ذریعے بھارتی شہریوں کو گوردوارے تک رسائی دینے کی بات کی، لیکن پاکستان کو کبھی بھی بھارتی حکومت کی جانب سے مثبت درعمل نہیں ملا۔ اگر پاک بھارت تعلقات کا جائزہ لیں تو بیس سال پہلے 'اعلان لاہور' ہی ایک ایسا موقع تھا جب دونوں ممالک نزدیک آئے تھے اور واجپائی جی نے اپنی نظم 'ہم پھر جنگ نہ ہونے دیں گے' کے ذریعے پاکستان کی دوستی کا جواب دوستی سے دیا تھا۔

دنیا کی 27 ملین سکھ آبادی میں سے ایک قلیل حصہ پاکستان کے شہری ہیں۔ 2011 کی بھارتی مردم شماری کے مطابق بھارت میں سکھوں کی تعداد 20.8 ملین ہے اور 77 فیصد سکھ برادری پنجاب میں آباد ہے، کیونکہ ان کےکئی اہم مقدس اور مذہبی مقامات پاکستان میں بھی ہیں، اس لیے ہر سال مختلف مذہبی تہواروں اور تقریبات میں شرکت کرنے کے لیے ہزاروں سکھ یاتری پاکستان کا رخ کرتے ہیں ۔

ان مقدس مقامات میں سے اہم گوردوارا صاحب 'کرتارپور' شکر گڑھ، ناروال میں واقع ہے، جو پاک بھارت سرحد پر ہونے کی وجہ سے کئی دہائیوں تک یاتریوں کی راہ تکتا رہا۔ 1999 میں یہ پہلی بار زیارت کے لیے کھولا گیا اور اس کے بعد سے محدود پیمانے پر بھارتی سکھوں کو یہاں کا ویزہ دیا جارہا ہے۔ پاکستانی حکومت نےبھارتی سکھوں کی سہولت کے پیش نظر ہی یہ راہ داری کھولنے کی بات کی۔

پوری دنیا نے پاکستان کے اس قدم کو مثبت اور خوش آئند قرار دیا، لیکن بھارت کی جانب سے ہمیشہ کی طرح سرد اور منفی جواب ہی سامنے آیا کیونکہ پاکستان مخالف بیانات پر سیاست کرنا مودی سرکار کا وطیرہ ہے۔

تاہم پنجاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو بچانے کے لیے مودی سرکار نے سیاسی پیش رفت کی اور پھر 'ٹرین چھوٹ جانے' جیسی تیزی دکھاتے ہوئے 22 نومبر کو بھارتی سرحدی علاقے گورداس پور پر بابا نانک صاحب کے مقام پر کرتار پور راہداری کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔

 اگر بی جے پی سرکار اپنی پاکستان مخالف انتخابی مہم چھوڑ کر 'یو ٹرن' نہ لیتی تو اس کے منجھے ہوئے سیاسی گھوڑے بھی پٹ جاتے

یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ ہر سیاسی میدان کے سب سے اہم کھلاڑی 'ووٹر' ہوتے ہیں اور یہ بھی سب کو ہی نظر آرہا ہے کہ بھارت کی جانب سے سنگ بنیاد میں جلدبازی کا واضح مقصد چند ماہ بعد آنے والے راجیہ سبھا کے انتخابات ہیں۔ پھر سشما سوراج چاہتی تھیں کہ پاکستان کے پیش کردہ کرتاپور ویزہ فری راہ داری منصوبے کو بھارتی نام دے دیں اور ہلکی ہلکی بازگشت آنے لگی کہ اس منصوبے پر بھارت کی جانب سے کئی سالوں سے کام ہو رہا تھا، لیکن پاکستان کی وزارت خارجہ کی جانب سے واضح کیا گیا کہ اس منصوبے کو پاکستان نے آگے بڑھایا ہے۔

اب چونکہ راجیہ سبھا کا سیاسی میدان سجنے میں وقت کم اور مقابلہ سخت ہے اور بی جے پی کو اپنی سیاسی حدت بھی دکھانی ہے، لہذا کرتار صاحب راہ داری کو کھولنے پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑا، کیونکہ اگر بی جے پی سرکار اپنی پاکستان مخالف انتخابی مہم چھوڑ کر یہ 'یو ٹرن' نہ لیتی تو اس کے منجھے ہوئے سیاسی گھوڑے بھی پٹ جاتے۔

اس وقت بھارت میں راجیہ سبھا کی انتخابی مہم کے ساتھ پانچ ریاستوں میں لوک سبھا کے انتخابات کا مرحلے وار سلسلہ بھی جاری ہے، یعنی بھارت میں سیاست اپنے مکمل جوبن پر ہے اور کئی ریاستوں میں کانگریس اور بی جے پی میں کانٹے کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ عام آدمی پارٹی کی سیاست ختم ہوتی نظر آرہی ہے اور یہ ہی صورت حال پنجاب کے آنے والے انتخابات میں بھی نظر آئے گی کیونکہ شیورمانی اکالی دل کے ساتھ کانگریس یا بی جے پی کے اتحاد کی بات کامیاب سیٹوں پر ہی طے ہوگی۔

یہاں بھارتی پنجاب کی علاقائی سیاست کو سمجھنا ضروری ہے۔ پنجاب اور سکھ برادری کی اپنی ایک سیاسی اہمیت ہے۔ اس وقت کانگریس اور شیورمانی اکالی دل پارٹی پنجاب کی اتحادی حکومت ہے جبکہ 2012 کے انتخابات میں اکالی دل نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا تھا، لیکن 2017 کے انتخابی نتائج میں بی جے پی سرکار عوامی مقبولیت کے لحاظ سے کافی پیچھے تھی کیونکہ پنجاب کے ووٹرز نے بی جے پی کے بجائے عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیئے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ کرتارپور راہداری منصوبے پر بھارت کی جانب سے سیاست کا سلسلہ جاری ہے، کیونکہ سکھ برادری کے لیے پاکستان کا مثبت کردار بھارتی وزیر خارجہ سشما سورج سے برداشت نہیں ہوا اور انھوں نے سنگ بنیاد رکھے جانے کے دن ایک بار پھر اپنے خطابی گولوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑتے ہوئے کہا تھا کہ 'کرتار صاحب گوردوارے تک راہداری کھولنے کامقصد پاکستان سے تعلقات بحال کرنا نہیں۔بھارت، سارک سمٹ کا حصہ نہیں بنے گا'، ساتھ ہی پاکستان پر ایک بار پھر الزام لگایا کہ 'پاکستان سے اُسی وقت بات ہوگی جب سرحد پار دہشت گردی نہیں ہوگی'۔

 بھارت نے باقی دنیا کو بھی یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ علاقائی ترقی پر یقین نہیں رکھتا بلکہ خود کو 'ایشیائی ٹائیگر' سمجھتا ہے

یعنی بھارت اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھے گا اور اگلے سال اسلام آباد میں منعقدہ جنوبی ایشیائی علاقائی تنظیم 'سارک' کے بیسویں اجلاس میں شریک نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ بھارت نے 2016 میں پاکستان میں ہونے والے انیسویں اجلاس کا بھی بائیکاٹ کیا تھا۔ دہلی کی جانب سے اس طرح کے بیانات کا آنا کوئی نئی بات نہیں، لیکن بھارت نے باقی دنیا کو بھی یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ علاقائی ترقی پر یقین نہیں رکھتا بلکہ خود کو 'ایشیائی ٹائیگر' سمجھتا ہے۔

پاک-بھارت تعلقات کے حوالے سے بھارتی میڈیا کا کردار ہمیشہ سے منفی رہا ہے جبکہ اُصولاً ہر مثبت پیش رفت یا ڈپلومیسی کے جواب میں دونوں طرف کے میڈیا کو درمیان کا راستہ نکالنا چاہیے، لیکن بھارتی میڈیا یکطرفہ فیصلہ نکالتے ہوئےپاکستانی سمت میں توپ داغنا شروع کر دیتا ہے۔

 کرتارپور راہداری کے سنگ بنیاد رکھے جانے جیسے اہم موقع پر بھی بھارتی میڈیا کو اور کچھ نہ ملا تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خالصتان تحریک کے سرگرم رکن گوپال چاولہ سے ہاتھ ملانے پر ہی شور مچاتا رہا، جس پر آئی ایس پی آر کی جانب سے کہا بھی گیا کہ اس تقریب میں صرف گوپال چاولہ سے نہیں بلکہ تمام شرکاء کا خیر مقدم کیا گیا اور دیگر مندوبین سے بھی خیر سگالی کے طور پر ہاتھ ملائے گئے۔

اس بار بھارتی سوشل میڈیا پر عمران خان کی تعریف بھی سدھو صاحب کا جرم ٹھہری اور وہ ہر ایک سے جھپی لینے سے کتراتے نظر آئے۔ پاکستان کی جانب سے گگلی اور کلین بولڈ کی باتیں کی گئیں، یہاں تک کہ وزیراعظم عمران خان  نے یہ بھی واضح کیا کہ کرتار پور پر پاکستان کی جانب سے کوئی سیاست نہیں کی جارہی، بلکہ یہ ایک سیدھا فیصلہ ہے۔

'گیروا رنگ' اور 'کنول کے پھول' کے انتخابی نشان والی مودی سرکار مسلسل اپنی انتخابی اور سیاسی حکمت عملیوں سے پاک بھارت تعلقات کی فضا کو گرم کر رہی ہے۔ ہمارا مشورہ ہے کہ سرکار سیاست ضرور چمکائیں لیکن یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ خطے کی علاقائی سیاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی عوام کے لیے بھی کام کریں اور ان کو آسانیاں فراہم کریں۔

پاکستان نے تو بھارتی سکھوں کی من کی مراد پوری کردی، اب وقت آگیا ہے کہ بھارتی حکمران عام ہندوستانی خصوصاً وہاں بسنے والے مسلمانوں کے بنیادی مسائل پر بھی کام کریں۔انہیں ہندو انتہا پسندی کو روکنے اور ہندوستانی مسلمان کو تحظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ پاکستان پر الزام تراشی مسائل کا حل نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔