21 دسمبر ، 2018
کراچی: سابق صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں آج کراچی کی بینکنگ کورٹ میں پیش ہوئے، جہاں ان کی ضمانت میں 7 جنوری تک کی توسیع کردی گئی۔
واضح رہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں آصف زرداری اور فریال تالپور کی عبوری ضمانت کا کل آخری روز تھا۔
صدر پیپلز پارٹی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی آج بینکنگ کورٹ میں پیشی کے موقع پر عدالت کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔
اس سے قبل آصف زرداری کی ممکنہ گرفتاری کے سلسلے میں پیپلز پارٹی نے بھرپور احتجاج کا فیصلہ کیا تھا اور اعلیٰ سطح کے اجلاس میں احتجاج کی حکمت عملی طے کی گئی تھی، جس کے تحت پیپلز پارٹی کے کئی ارکان بینکنگ کورٹ پہنچے۔
پی پی پی خواتین ونگ نے بھی تمام عہدیداران کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی اور بڑی تعداد میں جیالے بھی آصف زرداری اور فریال تالپور کے استقبال کے لیے موجود تھے۔
بینکنگ کورٹ کے باہر قائدین کے حق میں بینرز بھی آویزاں کیے گئے تھے۔
واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے مقدمے کا حتمی چالان ابھی تک عدالت میں جمع نہیں کرایا، تاہم جعلی بینک اکاؤنٹس کے معاملے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جےآئی ٹی) کی رپورٹ میں آصف زرداری اور فریال تالپور کو آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں چار جعلی بینک اکاؤنٹس سے فریال تالپور کے دستخطوں سے لین دین کا ذکر ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فریال تالپور زرداری گروپ اینڈ کمپنی کے مالی امور کو بھی دیکھتی رہی ہیں۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں آصف زرداری اور فریال تالپور کے ہمراہ مظفر ٹپی کے متنازع کردار، نجی بینک کے سربراہ اور یو اے ای کے شہری ناصر عبد اللہ لوتھا کا بھی ذکر ہے۔
اس سے قبل وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کو پتا ہے کہ جے آئی ٹی کی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کیا ہے، اسی لیے وہ بوکھلائی ہوئی ہے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کے صدر آصف زرداری کی نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن میں درخواست بھی دائر کردی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور رکن سندھ اسمبلی خرم شیرزمان نے پارٹی کی ہدایت پر آصف زرداری کی نااہلی کیلئے درخواست کراچی میں واقع الیکشن کمیشن سندھ کے دفتر میں جمع کرائی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہےکہ آصف علی زرداری نیو یارک میں قائم اپارٹمنٹ کے مالک ہیں، انہوں نے الیکشن کمیشن میں جمع کروائے جانے والے اثاثوں میں اس اپارٹمنٹ کا ذکر نہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہےکہ آئین کے مطابق آصف زرداری صادق اور امین نہیں رہے لہذا انہیں نااہل قرار دیا جائے۔
جعلی اکاؤنٹس کیس کا پس منظر
ایف آئی اے حکام کے مطابق منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا، اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔
حکام کے دعوے کے مطابق جعلی اکاؤنٹس بینک منیجرز نے انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی اور دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔
مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔
ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔
دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی ان کی تعداد 29 تھی جس میں سے سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس ہیں۔
ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔ 21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔
تحقیقات میں ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی، انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید، اے جی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔
حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔
ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔
حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔