بلاگ
Time 08 جنوری ، 2019

سیاسی مداخلت سے پاک پولیس ایک خواب

پاکستان کے چاروں صوبوں میں پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے کے دعوے اور وعدے تو بہت کیے گئے لیکن سیاست سے اس محکمے کی دوری حکمراں سیاسی جماعتوں کے لیے سود مند نہیں سمجھی گئی۔ پنجاب میں پولیس کے کام میں سیاسی مداخلت اور سربراہان و افسران کی تبدیلی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ سیاسی مداخلت کا معاملہ اتنا بڑھا کہ سپریم کورٹ کو نوٹس لے کر تنبیہ کرنا پڑی۔

لیکن سندھ کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ اکتوبر 2017 میں اس وقت کے آئی جی سندھ پولیس غلام حیدر جمالی اور سات دیگر پولیس افسران کے خلاف بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے کیس میڈیا میں بریکنگ نیوز اور شہ سرخیاں بنے۔ صوبے میں کسی پولیس سربراہ کی تعیناتی کی مدت تین برس ہے جسے ایک مرتبہ بڑھایا جا سکتا ہے لیکن جمالی صاحب کی تعیناتی صوبائی حکومت کی خواہش پر بڑھائی جاتی رہی ۔ آخر کار پہلے نیب اور بھر سپریم کورٹ کے کہنے پر ان کو ہٹایا اور تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔

اس کے بعد سندھ میں من پسند پولیس سربراہ لگانے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہو گئی اور اے ڈی خواجہ کو پولیس سربراہ بنا دیا گیا ۔ نئے سربراہ نے اپنے کام میں کسی بھی قسم کی مداخلت کو رد کرتے ہوئے اپنا کام ایمانداری سے کرنے کی کوشش کی جو حکومت کو پسند نہیں آئی اور وہ اے ڈی خواجہ صاحب سے ناراض ہو گئی۔ حکومت نے ان کو اپنی پوسٹنگ کے تین سال مکمل کرنے کے قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تبدیل کر دیا۔ صوبائی حکومت کے اس اقدام کو اعلیٰ عدلیہ نے رد کر کے اے ڈی خواجہ کو کام جاری رکھنے کے احکامات جاری کیے۔جو مدت پوری کرنے کے بعد تبدیل ہوئے۔

یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ۔ سندھ کی بات کریں تو یہ من مانی اب بھی جاری ہے اور اس بات کا واضح ثبوت 10 برسوں سے زائد مدت سے تعینات پولیس سروسز آف پاکستان کے وہ پولیس افسران ہیں جنہیں ان کے عہدے سے تبدیل نہیں کیا جا سکا۔ جو ان افسران کے طاقتور ترین ہونے کا کھلا ثبوت ہے ۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے نوٹیفیکیشن کے مطابق:

“The PAS/PSP officers of BS-21 and below who have served in any provincial or federal government for a continuous period of not less than 10 years may be transferred to the federal government or other provinces, as the case may be, in the public interest.

“The period spent on EOL/earned leave/study leave/ OSD/training/deputation/foreign posting shall be excluded for the purpose of computing continuous period of 10 years and will not be treated as break.”

یعنی ۔۔ پی اے ایس / پی ایس پی گریڈ 21 اور اس سے نیچے کے افسران جو کسی صوبے میں دس سال سے زائد عرصے سے تعینات ہیں ان کی خدمات وفاق کے سپرد کر دی جائے یا ان کو عوام کے مفاد کے پیش نظر کسی دوسرے صوبے میں پوسٹ کر دیا جائے۔ تعیناتی کی مدت کے تعین میں او ایس ڈی/ ٹریننگ/ ڈیپوٹیشن / بیرون ملک پوسٹنگ کو منہا کر دیا جائے گا لیکن اس کو پوسٹنگ میں تعطل تصور نہیں کیا جائے گا۔

جبکہ حکومت سندھ کے 2017 میں جاری ایک نوٹیفیکیشن میں پولیس ایکٹ 1861 کی سیکشن 12 کے تحت پولیس اہلکاروں بشمول اعلی افسران کی ٹرانسفر ، پوسٹنگ اور عہدے پر تعیناتی کی مدت کا تعین کیا گیا۔ ترمیم کو " سندھ پولیس پوسٹنگ، ٹرانسفر اور مدت ۔ رولز 2017" کا نام دیا گیا جس میں پولیس اہلکاروں اور افسران کی مدت تعیناتی کو تفصیل سے بیان کیا گیا۔اس حکمنامے کے پیرا 17 پولیس کمان کے عہدوں پر فائز افسران کی تبدیلی یا "روٹیشن پالیسی" کو بیان کیا گیا ہے ۔ پالیسی میں تعیناتی کی مدت کو بیان کرتے ہوئے پیرا 17 میں کہا گیا ہے کہ تمام پولیس افسران جن کی کمان کر تے ہوئے ان کو تعیناتی کی مدت دوسری مرتبہ پوری ہو تو ان کو کم از کم دو سال کے لیے کسی اسٹاف عہدے پر تعینات کیا جانا لازمی ہو گا۔

ان ترمیم کا مقصد اور حسن یہ ہے کہ ہر ایک پی ایس پی افسر کو کمان کرنے کا موقع مل سکے اور کمان کرنے والے کو اسٹاف پوزیشن پر کام کا تجربہ ہو۔ساتھ ہی پی ایس پی افسران کو ملک کے مختلف صوبوں اور وفاقی عہدوں اور محکموں میں کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اس طرح تمام پولیس افسران مختلف عہدوں کا علاقوں میں کام کرنے کی اہلیت کے حامل ہو سکیں۔

تاہم سندھ سے تعلق رکھنے والے پولیس سروسز آف پاکستان کے اکثر افسران کی طاقت کے آگے یہ قوانین بے معنی ہو جاتے ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق سندھ کے ڈومیسائل پر پولیس سروسز آف پاکستان کے گریڈ 19 ، 20 اور 21 کے کئی افسران گزشتہ 12 سے 20 برسوں سے سندھ میں مختلف عہدوں پر تعینات ہیں۔ ان میں گریڈ 21 کے ایک افسر، گریڈ 20 اور 19 کے 10 -10 افسران شامل ہیں جو گزشتہ 10 سال سے زائد عرصے سے سندھ میں تعینات ہیں۔

سندھ پولیس کے سربراہ کلیم امام سے یہ سوال کیا تو آئی جی سندھ نے کھل کر جواب دینےسے گریز کرتے ہوئے اسے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی روٹیشن پالیسی پر ڈال دیا۔ آئی جی سندھ پولیس سید کلیم امام نے کہا کہ پالیسی اسٹیبلشمنٹ ڈویژن پالیسی ڈرافٹ تیار کررہی ہے جس میں سندھ پولیس کے حوالے سے ہم نے اپنا آوٹ پٹ ڈالا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بہت جلد صرف سندھ کے ہی نہیں بلکہ پنجاب کے ایسے افسران جو دس دس سال سے ایک ہی صوبہ میں تعینات رہے ہیں انہیں دیگرصوبوں میں پوسٹ کیا جائے گا۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔