09 جنوری ، 2019
جھوٹے وعدے، کھوکھلے دعوے، مضبوط معیشت، احتساب اور ریاست مدینہ کا قیام۔۔۔
یہ خصوصیات ہیں 18 اگست کو وزیراعظم بننے والے عمران خان کے۔ جو 90 دنوں میں تبدیلی لانے چلے تھے اور آج حالت یہ ہے کہ 150 دن گزر جانے کے بعد نیا پاکستان تو درکنار، پرانا پاکستان بھی پرانی حالت میں دستیاب نہیں۔
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ سابق حکمرانوں نے پاکستان کو خوب لوٹا۔ پاکستان مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی باری باری اقتدار میں رہے اور ان سے وابستہ کئی رہنماؤں نے خوب ترقی کی۔ ان کرپٹ حکمرانوں کا احتساب ہر پاکستانی چاہتا ہے۔ لیکن خان صاحب، اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ عوام سے کئے جانے والے وعدوں اور ملکی ترقی کو پس پشت ڈال کر آپ اور آپ کی کابینہ صرف سابق حکمرانوں کے احتساب کے پیچھے پڑجائیں۔
آپ کا اور آپ کی منتخب کردہ کابینہ کا ماننا ہے کہ سابق حکمرانوں کے خلاف حکومت نہیں، نیب تحقیقات کررہی ہے۔ تو پھر خان صاحب، نیب اور عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں اور آپ اپنا کام کریں۔
تحریک انصاف کو ایک کروڑ 68 لاکھ ووٹ دینے والوں کو میٹھی گولیوں کے علاوہ کچھ تو دیں۔ کوئی ایسے اقدامات کرکے دکھائیں، جن سے پاکستان عوام کو تھوڑا آسرا ہو کہ تبدیلی فوراً نہ سہی، لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد ضرور آئے گی۔
خان صاحب، ابھی آپ کو اقتدار میں آئے چند ماہ ہی گزرے ہیں تو آپ کی حکومت گرانے کی باتیں شروع ہوگئی ہیں۔ آپ کے ہاتھوں میں متحدہ اور بی این پی مینگل کی کمزور بیساکھیوں کو کھینچ کر حکومت کو زمین بوس کرنے کی خبریں سنائی دے رہی ہیں۔
اس صورتحال کا ذمہ دار کوئی اور نہیں، بلکہ آپ اور آپ کی منتخب کردہ کابینہ ہے۔ جن کے پاس اپنی اچھائیاں ہونے کی بجائے اپوزیشن کی برائیاں زیادہ ہیں۔ آپ کا اپنا حال تو یہ ہے کہ آپ بیرون ملک دوروں پر بھی سابق حکمرانوں کی کرپشن کہانیاں سننانے لگتے ہیں۔ آپ دوسرے ممالک سے اپنے ویژن کی بنیاد پر نہیں، بلکہ سابق حکمرانوں کے ہاتھوں پاکستانی قوم کو ہونے والے نقصانات کی بنیاد پر امداد مانگتے ہیں۔
خان صاحب، بس کردیں بس۔۔۔
عوام نے آپ کو آپ کی دیانت داری اور پاکستان سے محبت کی وجہ سے ووٹ دیے۔ اس لئے ووٹ دیے کیونکہ انھیں یہ پتہ چل چکا ہے کہ سابق حکمران کرپٹ ہیں اور آپ پر عوام کو یقین ہے کہ آپ کم از کم سابق حکمرانوں کی طرح پاکستان کو لوٹیں گے نہیں۔
لیکن خان صاحب، صرف آپ کی کھوکھلی دیانت داری اور پاکستان سے محبت کسی کام کی نہیں ہے۔
عوام کو ریلیف چاہیے۔ عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ سابق وزیراعظم کو العزیزیہ کیس ریفرنس میں سزا ہوئی یا فلیگ شپ ریفرنس میں انھیں بری کیوں کر دیا گیا۔
سابق صدر آصف زرداری منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں یا ان کے بے نامی اکاؤنٹس سے بڑی بڑی ٹرازیکشنز ہوئیں۔
عوام کو جب اپنی اور اپنے بچوں کی فکریں چھوڑیں گی تو وہ ان کرپشن کی غضب ناک کہانیوں میں دلچسپی لیں گے۔ عوام کا مسئلہ روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ تعلیم، روزگار، بنیادی سہولتیں اور بچوں کا مستقبل ہے۔ جن کا کسی بھی طرح کوئی تعلق شریف اور بھٹو خاندان کو ملنے والی سزاؤں سے ہر گز نہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان جیسی آئیڈیل جمہوریت میں حکومت کا نیب اور عدالتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن خان صاحب۔۔۔ یہ منجن کب تک بیچیں گے۔ آپ عوام کو کب تک یہ کہہ کر چونا لگاتے رہیں گے کہ نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرادری پر کیسز پہلے اداوار میں بنے۔ عوام اگر اتنی باشعور ہوگئی ہے کہ اس نے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو رد کیا ہے۔ تو وہ اتنی بھی سمجھدار ہے کہ وہ سمجھ سکے کہ آپ کی بہن علیمہ خان کے خلاف تحقیقات اس رفتار کیوں نہیں ہو رہیں جس سے دیگر لوگوں کے خلاف ہو رہی ہیں۔ عوام جانتی ہے مالم جبہ کی زمینوں کے فراڈ سے متعلق کیس میں وزیراعلی خیبر پختونخوا کا کیا کردار تھا۔
خان صاحب، سب کچھ چھوڑیں۔۔۔
کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ دکھاوے کے احتساب کا سلسلہ کچھ دیر کے لئے ہولڈ کرلیں اور حکومت کو اپنے پیروں میں کھڑا ہونے دیں۔ شریف اور زرداری خاندان کے خلاف کرپشن کیسز جو پہلے سے ہی درج تھے۔ ان پر کارروائی کچھ دیر کے لئے روک دیں تا کہ آپ حکومتی پچ کا بغور معائنہ کر لیں اور وکٹ پر جمنے کے بعد شاٹس کا چناؤ کریں۔
ابھی بھی وقت ہے۔ خان صاحب سنبھل جائیں۔ وقتی طور پر اس احتساب کو ہولڈ کروادیں اور اگر آپ کے بس میں نہیں تو یہ یاد رکھیں کہ آپ کو اقتدار میں لانے والے ہی نواز شریف کو اقتدار میں لائے تھے اور وہی آپ کو لال جھنڈی دکھا سکتے ہیں۔ آپ کے وزراء کی نااہلی کا سراسر نقصان آپ کو ہو رہا ہے۔ کیونکہ ناکام کوئی اور نہیں بلکہ آپ ہوں گے۔
خان صاحب، حکومت کی کارکردگی پر توجہ دیں اور عوام کو ریلیف دیں۔ عوام کو ایسی تبدیلی دیں۔ جس کی عوام دہائیوں سے امیدیں لگائی بیٹھی ہے۔
اگر آپ نے عوام کو خوش کردیا تو سابق حکمرانوں کا احتساب خود ہی ہوجائے گا۔ نواز شریف یا آصف زرداری کی جیل جانے سے عوام کو کچھ بھی نہیں ملے گا۔ ہاں اگر آپ نے عوام کو حقیقی تبدیلی دے دی تو اگلے انتخابات میں سابق حکمران اپنی موت خود مرجائیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔