17 جنوری ، 2019
اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی ملازمت کا آج آخری روز ہے جس کے بعد وہ ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کے دور میں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے برطرف کرنے سمیت کئی اہم مقدمات کے فیصلے کیے گئے، کچھ سیاستدان نااہل ہوئے اور بعض صادق اور امین کے منصب سے ہی نیچے گرادیے گئے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار، نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں سیکریٹری قانون رہے، لاہور سے وکالت شروع کی، ایڈووکیٹ جنرل آف پنجاب کے عہدے پر بھی فائز رہے اور جج بننے سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے قریب سمجھے جاتے تھے۔
میاں ثاقب نثار 22 مئی 1998 میں بطور لاہور ہائیکورٹ کے جج تعینات ہوئے اور 11 فروری 2010 کو سپریم کورٹ میں جج کی حیثیت سے فرائض سنبھالے، جسٹس میاں ثاقب نثار نے 31 دسمبر 2016 کو ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چیف جسٹس کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔
چیف جسٹس پاکستان کی حیثیت سے جسٹس ثاقب نثار نے سیاسی مقدمات، ازخود نوٹسز کے ذریعے کرپشن کی روک تھام، ڈیم کی تعمیر اور آبادی میں کنٹرول جیسے منصوبوں پر توجہ مرکوز کیے رکھی۔
اس دوران زیر التواء مقدمات کی تعداد بڑھتی گئی، ان کے منصب سنبھالنے پر یہ تعداد 30 ہزار 404 تھی اور آج مقدمات کی تعداد بڑھ کر 40 ہزار 540 ہوگئی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں اثاثے چھپانے کے مقدمات میں نواز شریف اور جہانگیر ترین کو زندگی بھر کے لیے نااہل قرار دیا گیا جب کہ توہین عدالت کے مقدمات میں دانیال عزیز، نہال ہاشمی اور طلال چوہدری سمیت متعدد پارلیمنٹرینز کو نااہل قرار دے کر گھر یا جیل کی راہ دکھائی گئی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے نواز شریف کو پارٹی صدارت سے بھی نااہل قرار دیا، سینیٹ انتخابات کے لیے (ن) لیگی امیدواروں کو نواز شریف کے دستخطوں سے جاری پارٹی ٹکٹ کالعدم ہو گئے اور انہیں آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا پڑا۔
ن لیگ کے سینیٹرز ہمایوں اختر اور سعدیہ عباسی کو دہری شہریت پر نااہل قرار دیا گیا جس کے بعد پنجاب سے سینیٹ کی یہ دونوں نشستیں تحریک انصاف کے حصے میں آئیں۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے 2018 کے عام انتخابات سے پہلے 42 ارب روپے کے مبینہ جعلی اکاؤنٹس اسکینڈل کا ازخود نوٹس بھی لیا اور اس پر نیب کو تحقیقات کا حکم دیا، اس مقدمے میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے نام سامنے آئے۔