عمرانیات کے قاعدے کی پابند پولیس

کوئی لاکھ کہے کہ پاکستان میں تھوک کے حساب سے سربراہانِ حکومت بدلتے رہے، جیسا کہ اب نواز شریف کے بعد عمران خان، مگر یہاں حکومت کبھی نہیں بدلی۔ ہمارے ہاں حکومت اس اساطیری طوطے جیسی ہے جس میں گئے وقتوں میں جو جنات ہوتے تھے، ان میں سے کسی ڈاہڈے جن کی جان ہوا کرتی تھی۔ بس ہیرو شہزادے کو کسی طرح سے اس طوطے کو حاصل کرکے اس کی گردن مروڑنا ہوتی تھی۔ اور یوں طوطے کے ساتھ ہی اس ظالم جن کی موت واقع ہوجایا کرتی تھی اور شہزادہ شہزادی کو لے کر خوش خوش اپنے محل میں لوٹ آتا تھا۔

ارتقاء کے نتیجے میں فرق یہ پڑا کہ اب طوطے والوں نے یہ کمال حاصل کرلیا ہے کہ طوطے کی جان کو جن کی بجائے کسی شہزادے کی جان سے بھی مشروط کرلیتے ہیں۔ اور جب یہ شہزادہ طوطے پر ہاتھ ڈالنے لگتا ہے تو اسے بڑے ادب سے آگاہ کیا جاتا ہے کہ جناب احتیاط! اس طوطے میں کسی جن کی نہیں آپ کی جان ہے کیونکہ اس مقامِ محمود تک پہنچنے کے بعد آپ کی حیثیت کسی جن سے کم نہیں۔ سو اگر جان عزیز ہے تو اس طوطے کی حفاظت کیجئے۔ اور یوں تخت پر براجمان ہونے والے شہزادے کو خود سے زیادہ طوطے کی حفاظت کا فریضہانجام دینا پڑتا ہے۔

اب طوطا تو طوطا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ وہ اپنی زبان نہیں بولتا بلکہ وہی بولتا ہے جو اسے سکھلایا گیا ہوتا ہے۔ اور اس کی دوسری خصوصیت طوطا چشمی کہلاتی ہے۔جدید زبان میں پہلی بات کو ہم ’ہز ماسٹرز وائس‘ اور دوسری خصوصیت کو ’یو ٹرن‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جس طرح دو تلواریں ایک میان میں داخل نہیں ہوسکتیں، اسی طرح یوٹرن اور اخلاقیات بھی ایک پنجرے میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ سو جب چاہا اخلاقیات کا بھاشن دے لیا اور جب ضرورت پڑی یو ٹرن لے لیا۔ رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی۔

جب شہزادہ جان لیتا ہے کہ اس کی زندگی (جیسی بھی ہے) اب طوطے کی جان سے بندھی ہے تو وہ طوطے کی ناراضی کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ طوطے کے مطالبے بلکہ اشارے پر ہی خامیوں کو خوبیاں کہے بنا چارہ نہیں رہتا۔ پچھلے شہزادے کو جن باتوں پر دن رات مطعون کیا جاتا تھا اور اس کو تخت سے اتار کر تختے پر چڑھانے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں، اب انہیں باتوں کا جواز گھڑنا پڑتا ہے کہ نہیں جناب مرنے والے انسان نہیں بلکہ سر تا پا ولن تھے اور مارنے والے سراسر محافظِ قوم۔ سو خبردار اگر کسی نے ان پر انگلی اٹھائی تو۔ 

وہ جو ظالم پولیس تھی، جو نہتے لوگوں کو مکئی کی طرح بھون دیا کرتی تھی، وہ پہلے والوں کی تھی۔ ہماری پولیس تو صرف دہشت گردوں کو مارتی ہے، ہاں بس غلطی سے ایک آدھ شریف شہری بھی ساتھ میں مارا گیا تو کیا ہوا، پوری قوم کی حفاظت کے لیے یہ کوئی بڑی قیمت تو نہیں۔ اور پھر دیکھو ہم نے مرنے والوں کے ساتھ کتنا کرم کیا۔ ایک تو انہیں بنا کسی محنت کے شہادت کے رتبے پر فائز کردیا اور دوسرا ان کے بچوں پر خزانۂ عامرہ کا منہ کھول دیا۔ مگر لوگ ہیں کہ ریاستِ مدینہ کی مہربانیوں کو مان کر نہیں دے رہے۔

عجب بات ہے کہ یہی پولیس جو کچھ عرصہ پہلے تخت لاہور والوں کے نزدیک اچھی تھی ان کے تخت بدر ہوتے ہی ظالم ہوگئی۔ اور انصاف والوں کے تئیں یہی پولیس جو کل تک چنگیز خانی تھی اب عین عمرانیات کے قاعدے کی پابند بن گئی۔ کل تک جن الزامات کی بنیاد پر دوسروں کے گریبان پر ہاتھ ڈالا جاتاتھا، آج کوئی ان کے جواب میں اپنے گریبان میں منہ ڈالنے کو بھی تیار نہیں۔

وہ جو کل تک ہر خامی اقتدار کے طوطے پر ڈال کر اور اس کی گردن مروڑنے کے درپے تھے آج خود اس طوطے کی دل و جان سے حفاظت میں جُتے ہیں۔ طوطا پنجرے میں مزے سے چہک رہا ہے اور اب جس کی اس میں جان ہے اسے ہر لمحہ یہ ڈر کھائے جاتا ہے کہ کہیں اس کے ہاتھوں کے طوطے نہ اُڑ جائیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔