بلاگ
Time 28 جنوری ، 2019

تبدیلی، دیسی یا مِسری؟

— 

بیوی کے سامنے گھٹنے ٹیکتے اور غیرت مند ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس بار جب میں سبزی، پھل اور گوشت لینے بازار گیا۔ تو مجھے اندازہ ہوا کہ "تبدیلی آ نہیں رہی، بلکہ تبدیلی آچکی ہے"۔

انتہا کا کاہل اور کام چور ہوتے ہوئے انتہائی مشکل سے دیسی روئی سے بنی ریشمی رضائی کو الگ کیااور ٹھٹھرتے ہاتھوں اور دھواں نکالتی سانسوں کے ساتھ چھٹی کے دن قلولہ کرتی گاڑی کو گیراج سے بے دخل کیا۔

چار پہیوں والی گاڑی کو خراما خراما گھسیٹ کر جب سبزی والی دکان پہنچا۔ تو کنوں (مالٹوں) کی چھابڑی پر 60 روپے کی تختی لگی دیکھ کر نادیدے منہ میں کنوؤں کے کھٹے میٹھے رس کا سیلاب آگیا۔ جس میں میں کمی تھی تو بس کالے نمک کی۔

سستے کنوں دیکھ کر میری ایسے رال ٹپکی کہ میں نے آؤ دیکھا نا تاؤ۔ فوراً 3 درجن کنوں ڈالنے کے لئے شاپر طلب کرلیا۔ جس کے جواب میں دکان والے نے ایسا بم پھوڑا کہ میرے چودہ طبق روشن ہوگئے۔

طنزیہ نظروں سےمجھے گھورتے ہوئے بولا، پائین (بھائی جان) کنوں 60 روپے کلو ہیں۔ 60 روپے درجن نہیں۔ اوہ وقت گیا جب کنوں درجنوں کے حساب سے ملتے تھے۔ یہ "نیا پاکستان" ہے۔ جہاں، کنوں کلو کے حساب سے ملتے ہیں۔ درجنوں کے حساب سے نہیں۔

اپنی چپٹی ناک کو اونچا رکھنے کی خاطر میں نے دو کلو کنوں شاپر میں ڈالنے کی مودبانہ درخواست کی۔ جس میں صرف 10 کنوں چڑھے۔ یعنی درجن کنوں 120 روپے سے بھی زیادہ مہنگے۔

خیر میں نے 10 کنوں اور بیوی کو درکار سبزیاں خریدیں اور پیسے دینے سے پہلے پرانے پاکستان کی عادتوں کے مطابق ہری مرچیں اور دھنیاں ڈالنے کا کہا۔

ہری مرچوں اور دھنیے کا چونگا (مفت) سُن کر دکاندار پھر طنزیہ نظروں سے مجھے تکنے لگا اور زور دے کر بولا، باؤ جی کتنے کا دھنیا اور کتنی کی مرچیں۔ان ورٹڈ کوما میں لپٹا دکاندار کا بارودی سوال سُن کر میں نے عزت اسی میں سمجھی کہ 20 روپوں کا دھنیا مرچیں لوں اور نیوے نیوے ہو کر کھسکوں اور چکن کی دکان پر ہلہ بولوں۔

چکن والی دکان پہنچ کر نئے پاکستان میں شدید سردی کی وجہ سے میرے کنگلے دل میں خیال آیا کہ کیوں نا برائیلر مرغی کے ساتھ یخنی کے لئے دیسی مرغی بھی لے لوں۔ جس کا ریٹ پوچھنے پر چکن والے نے میرے علم میں ایسا اضافہ کیا کہ مجھے لگا کہ یہ نا ہوکہ چکن والا میرے علم میں اضافہ کرنے کی ہی فیس طلب کر لے۔

چکن کی ایک اور نسل متعارف کرواتے ہوئے چکن والے نے دریافت کیا کہ کس کا ریٹ "دیسی کا یا مِسری کا"؟

مسری کا لفظ سُن کر پہلے تو میرے کُن ذہن میں خیال آیا کہ کیا نئے پاکستان میں دیسی مرغیاں مصر سے درآمد ہونے لگی ہیں۔ اپنے گھٹیا خیالات پر قابو پانے کے بعد انتہائی احترام سے میں نے چکن والے سے طلب کیا کہ یہ "مسری" کیا ہے؟

چکن والے نے بھی مجھے کم عقل سمجھتے ہوئے جواب دیا کہ مسری مرغی، برائیلر اور دیسی کے ملاپ سے اس دنیا میں آتی ہے۔ جیسے گھوڑے اور گدھے کے ملاپ سے کھچر۔

ہزاروں مکھیوں اور مسحور کُن خوشبو والی دکان میں چکن والے کا یہ جواب سُن کر میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس سے پہلے کہ میرے منہ میں مکھیاں بسیرہ کرتیں۔ میں نے صحافی ہوتے ہوئے سوال داغ دیا کہ دیسی مرغیاں تو اس کا مطلب خالص خاندانی ہوتی ہوں گی، جن کی نسل میں کسی برائیلر مرغی یا مرغے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہوگا؟۔

جواب میں چکن والے نے میرے اِنگ سوّنگ سوال کو یہ کہہ کر لیفٹ کردیا کہ باؤ جی، اب تو مصنوعی طریقوں سے بچے پیدا ہونے لگے ہیں۔ یہ تو پھر مرغیاں ہیں۔۔۔ ہاہاہا۔

دیسی اور مسری مرغی کے درمیان فرق کا چاچا گوگل سے پوچھنے کا ارادہ کیا اور دیسی مرغی خریدنے کا ارادہ یہ سوچ کر ترق کردیا کہ جب تک ڈالر 100روپے کا نہیں ہوجاتا۔ تب تک دیسی چکن کا بائیکاٹ۔

گھر پہنچ کر خریدی گئی سبزیوں کے ریٹ جب بیوی کو بتائے تو جواب میں سننے کو ملا کہ "آپ تو ہمیشہ ہی پیسے ضائع کرکے آتے ہیں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ میں خود ہی چلی جاتی"۔

اس طنزیہ باؤنسر کو میں نے بھی چکن والے کی طرح لیفٹ کردیا اور کمرے میں جا کر لیپ ٹاپ آن کرتے ہی چاچا گوگل پر مسری اور دیسی مرغی میں فرق سرچ کیا۔

چاچا گوگل کا جواب دیکھ کر انتہائی مایوس ہوئی اور realise ہوا کہ گوگل کی اہلیت بس اتنی ہے کہ وہ ہیلی کاپٹر پر ایک کلومیٹر کا سفر کتنے میں پڑتا ہے، بتا سکے۔ دیسی اور مسری مرغی میں فرق کے معاملے میں چاچا گوگل ویسے ہی فارغ ہے۔ جیسے نئے پاکستان وزیراعظم کو سلیکٹڈ وزیراعظم' کہا جا رہا ہے اور کسی کو نہیں معلوم کہ آنے والی تبدیلی مِسری ہے یا پھر خالص جمہوری طریقے سے بزریعہ انتخابات آنے والی دیسی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔