07 فروری ، 2019
اسلام آباد: اڈیالہ جیل میں مرغی چوری کے الزام میں ایک سال سے قید شخص نے سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کردی۔
گلگلت بلتستان سے تعلق رکھنے والے محمد زاہد پر ایک سال قبل اس کے سابقہ مالک سجاد کی جانب سے 15 مرغیاں چرانے کا الزام لگایا گیا تھا۔بظاہر چوری کی اس جھوٹی واردات کے دو ماہ اور دس دن گزر جانے کے بعد درخواست گزار راجہ سجاد نے جواسلام آباد میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار کا مالک ہے ،کورال کے تھانے میں چوری کی رپورٹ درج کروادی۔
سجاد نے پولیس کو بتایا کہ 6 فروری 2018 کی رات کو اس کے آفس سے نامعلوم فرد نے 15 مرغیاں ، ایک پانی کا ڈسپینسر اور بیڈمنٹن سیٹ چرایا۔
درخواست گزار نے رپورٹ میں مزید لکھوایا کہ میں نے خود سے چور کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہا۔اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ محمد زاہد نے میری مرغیاں چرائی ہیں۔ملزم کو گرفتار کر کے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔
اسی دن پولیس نے 380/457 (پی پی سی 1860) کے تحت ایف آئی آر درج کرلی جو کہ قابل ضمانت جرم ہے۔
ملزم زاہد کے والد 79 سالہ برادر خان نے بتایا کہ پولیس اس کیس میں نہ تو ملزم سے مرغیاں برآمد کرواسکی اور نہ ہی درخواست گزار اس ضمن میں کوئی ثبوت پیش کر سکا۔اس کے باوجود پولیس نے محمد زاہد کو اسی دن گرفتار کرلیا اور بعد میں اسے اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔
ملزم کے والد کے مطابق زاہد اپنے 5 بچوں کا واحد کفیل ہے۔ یہ خاندان گلگت کے شہر غذر کے پاس ایک چھوٹے سے گاؤں کونوداس سے دس سال قبل اسلام آباد منتقل ہوا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے پاس اپنے بیٹے کا کیس لڑنے کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔اب کھانے کے بھی لالے پڑ چکے ہیں۔ان کا بیٹا سجاد نامی شخص کے پاس کام کرتا تھا اور وہ اس سے اپنی تنخواہ کی مد میں 8000 کا تقاضہ کر رہا تھا۔
سجاد نے بجائے پیسے دینے کے ان بیٹے کو مارا پیٹا بلکہ چوری کی اس واردات کا الزام لگانے سے کافی ماہ قبل ہی نوکری سے نکال بھی دیا تھا۔
لیکن سجاد اس بات سے مسلسل انکار کر رہا ہے ۔اس کا مؤقف ہے کہ اس نے ملزم کو اس کے بقایاجات ادا کر دیے تھے۔
تاہم درخواست گزار اس بات کی وضاحت میں ناکام ہے کہ اس نے چوری کی رپورٹ درج کروانے میں 9 ہفتوں کا انتظار کیوں کیا۔
ملزم کے والد کی جانب سے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست جمع کروادی گئی تھی جو جوڈیشنل مجسٹریٹ اسلام آباد کی جانب سے 21 ستمبر 2018 کو مسترد کر دی گئی۔اس کے بعد ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد کو ضمانت کی درخواست دی گئی لیکن وہ بھی 9 نومبر 2018 کو مسترد ہو گئی۔
بعد ازاں ملزم نے ضمانت کی درخواست اپنے وکیل کے ذریعے ہائی کورٹ میں داخل کی۔ درخواست میں بتایا گیا کہ ملزم پولیس کی حراست میں آٹھ ماہ گزار چکا ہے لیکن اس سے چوری شدہ مال برآمد نہیں کروایا جا سکا۔
اس حوالے سے سجاد کے وکیل کی جانب سے اس درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ملزم عادی مجرم ہے اس لیے ضمانت نہیں ملنی چاہیے۔
فریقین کو سننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ملزم پر درخواست کنندہ کے قیمتی سامان کی چوری کا الزام لگایا تھا۔ریکارڈ سے ملزم کا عادی مجرم ہونا ثابت ہوتا ہے اس لیے ضمانت ممکن نہیں۔ ساتھ ہی یہ کیس ٹرائل کورٹ کو بھیج دیا گیا اور دو ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم جاری کر دیا گیا۔
ملزم کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے حقائق کی چشم پوشی کی بیناد پر اب درخواست سپریم کورٹ میں جمع کروادی ہے۔سپریم کورٹ میں یہ مقدمہ اگلے ہفتے سنا جائے گا۔