بلاگ
Time 20 فروری ، 2019

منٹو کی تلاش۔۔۔

— سعادت حسن منٹو

سرگزشت رسالہ پڑھنے والوں کو یاد ہو گا کہ رسالے میں  پہلی نمایاں تحریر کسی ممتاز شخصیت کے شخصی خاکے پر مبنی ہوتی تھی ۔ یہیں ہمارا تعارف عصمت چغتائی اور منٹو سے ہوا۔ کچی پکی عمر تھی ،کچھ سمجھ میں آیا اور کچھ اوپر سے گزر گیا لیکن دونوں ناموں میں دلچسپی بڑھا گیا۔

گھر میں کتابیں تھیں اور ادبی رسالے  پڑھنے کا رجحان بھی تھا لیکن کبھی ان دونوں کی کتابیں گھر میں نہیں دیکھیں۔آس پاس کے گھروں میں بھی ان مصنفین کی کتابیں ندارد تھیں۔

شہر کی دو لائبریریوں "رنگون والا کمیونٹی لائبریری" اور'' شبیر احمد عثمانی لائبریری'' جہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ان لائبریریوں میں ہر طرح کی کتابوں کے سیکشن ہونے کے باوجود بھی عصمت اور منٹو  کسی سیکشن میں نظر نہ آئے۔ خود سے طلب کرنے کی ہمت نہ ہوئی اور یوں کالج تک منٹو یا عصمت ہاتھ نہ لگ سکے۔ 

اس کوشش میں دوسری کتابیں پڑھنے کا سلسہ جاری رہا جیسے جانگلوس، علی پور کا ایلی ، آنگن ، میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا ، آگ کا دریا اور اداس نسلیں۔ لیکن منٹو کی جستجو اپنی جگہ تھی۔

کتابوں کی دنیا کی سیر کرتے ہوئے ہم کالج سے یونیورسٹی آگئے، منٹو کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھنے سے پہلے ہم نے ان پر لکھی ہوئی کتابیں پڑھنا شروع کیں ، جیسے شیما مجید کی " منٹو نامہ"، "منٹو راما"۔ جستجو صرف مصنف کی " خاصے کی بات " تلاش کرنا تھی جس کی بنیاد پر ان کی کتابیں شجر ممنوعہ کہلاتی تھیں۔

منٹو پر اور منٹو کی کتابیں پڑھ لینے کے بعد ایک غیر ادبی قاری کی حیثیت سے میں  نے منٹو کی تحریروں کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ افسانے ، ترجمے اور بہترین خاکے۔

منٹو کو ازبر کرنے  کا دعویٰ تو نہیں لیکن جتنا پڑھا اور سمجھا مجھے ان کے ہاں زندگی کو جھیلتے ہوئے زندہ اور چلتے پھرتے کردار نظر آئے۔ان کے ہاں بڑے لوگوں کی کہانیاں نہیں ہیں۔ منٹو کو بیچارہ "سازندہ "بھی کہانی کے لیے موزوں کردار لگتا ہے۔ آشفتہ سر"مٹی کی محبت "میں کیوں زخم کھاتے ہیں؟ یہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں دیکھا۔ کیسے ایک پاگل "بشن سنگھ "بڑے سے بڑا زخم جھیل گیا، لیکن تقسیم کا زخم نہ سہہ پایا۔

منٹو کو ایک پیشہ کرنے والی عورت  بغیر فاحشہ کا لیبل لگائے  صرف عورت ہی لگتی ہے ۔ وہ کیا اور کیسی ہے اسے وہ قاری پر چھوڑ دیتے ہیں۔

منٹو کے برے کردار چبھتے ضرور ہیں لیکن ان سے نفرت محسوس نہیں ہوتی ۔برے کردار کو بھی معصوم اور سادہ بنادینے کی خوبی منٹو کی تحریروں میں ہی ملتی ہے۔ جیسے "ٹھنڈا گوشت" کا کردار" ایشر سنگھ "نفرت انگیز ہوتے ہوئے بھی نفرت انگیز نہیں لگتا بلکہ ایک ٹوٹا پھوٹا انسان نظر آتا ہے۔ "نیا قانون" کا منگو کوچوان خود کو خوب سمجھدار سمجھتا ہے ، "نئے قانون" کی لپیٹ میں آکر جیل چلا جاتا ہے اور پڑھنے والے کی تمام تر ہمدردی سمیٹ لیتا ہے۔ صرف یہی نہیں ایک لمبی فہرست ہے کرداروں کی جن پر سیر حاصل گفتگو ہو سکتی ہے۔

ماننے والے مانیں گے کہ تقسیم کے موضوع کو منٹو نے ایک الگ انداز میں زندہ کیا ۔ ان کی کہانیوں میں حقیقی زندگی "پرفیکٹ پیکچر" کا نام نہیں ہے ۔بلکہ انسانی کمزوریوں ، اچھے برے فیصلوں کی ذد میں آنے والے حالات و واقعات اور ان جھمیلوں سے نکلنے کی کہانی منٹو نے کہہ ڈالی ہے ۔

آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ منٹو کو بڑے کردار نظر ہی نہیں آتے تھے ۔ اپنے ضدی مزاج کی وجہ سے انھوں نے ایک خاص طرز میں مخصوص کرداروں کو لے کر بہت لکھا۔ مقدمے جھیلے لیکن لکھنا نہیں چھوڑا۔ منٹو ایسے ہی تھے اور آخر تک ایسے ہی رہے۔

مجھے کبھی کبھی حیرت ہوتی ہے کہ  لوگ ان سے ڈر کر دور نہیں ہوتے تھے کہ یہ شخص تو صرف ان کا باہر نہیں بلکہ  ان کا "اندر" بھی دیکھ لے گا جس وہ خود  بھی واقف نہیں ہونا چاہتے۔

وہ ''خاصے کی بات'' جس کی  مجھے تلاش تھی ،کافی عرصے کے بعد ہاتھ لگی کہ لوگ منٹو سے نہیں کتراتے تھے بلکہ ان کی حقیقت کی عکاسی سے خائف تھے۔آخر حقیقت کا سامنا کون کرنا چاہتا ہے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔