08 مارچ ، 2019
ذکر ہے جنوبی سندھ کے ضلعے ٹنڈو محمد خان کے علاقے ڈگ موری کی پر اعتماد ماریہ پرتاب کا جو دور دراز کے دیہی علاقوں کی باہمت، بلند حوصلہ اور پر عزم خواتین کی نمائندہ ہیں۔
منظر ہے حاظرین سے بھرے ہوئے ایک ہال کا جہاں ماریہ پرتاب کو اسٹیج پر بلایا جاتا ہے۔ جامنی رنگ کے روایتی گجراتی لباس میں ملبوس ماریہ مسکراتے ہوئے مائیک سنبھال کر اپنے علاقے کی چار سالہ کارکردگی پیش کرتی ہیں۔ یہ کارکردگی نہیں ہے بلکہ ایک دیہی علاقے کی پرعزم خاتون کے بلند حوصلے کا ثبوت ہے۔
کہانی ہے سادہ اور پر اثر اسی ماریہ پرتاب کی۔اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے چند سال قبل جب ایک ہندو گھرانے سے تعلق رکھنے والی پانچ جماعتیں پاس،گھریلو خاتون کیمونٹی آرگنائیزیشن (سی او)کے طور پر سامنے آتی ہیں اور تین سال کی قلیل مدت میں "لوکل سپورٹ آرگنائیزیشن "کی نمائندہ کے طور پر خود کو منوا لیتی ہے۔
ماریہ پرتاب کی کہانی انہی کی زبانی پڑھیے:
میں رواجوں اور رسومات کے سائے میں پل کر بڑی ہوئی ہوں۔رواج ہی کے مطابق میری شادی پندرہ سال کی عمر میں ہو گئی اور میرا گھر والا مزدوری کرتا ہے۔ میں اس وقت تین بچوں کی ماں ہوں اور بہت خوش قسمت بھی کہ میری ایک بیٹی بھی ہے۔
ڈگ موری، ضلع ٹنڈو محمد خان کا ایک چھوٹا سا علاقہ ہے جو کہ صرف پینتیس گھروں پر مشتمل ہے اور زیادہ تر "پارکر "ذات کے لوگ بستے ہیں۔ اس علاقے کی چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں ہندو مسلم ساتھ اور پرامن رہتے ہیں۔
میں ہمیشہ سے ہی اپنے علاقے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن سندھ یونین کونسل اور کمیونٹی اکنامک اسٹرینتھننگ سپورٹ پروگرام (سکسیس) کی ٹیم کا حصہ بننے پر مجھے ضلعی سطح پر سرکاری افسران کے سامنے علاقے کے مسائل پہنچانے کی ذمہ داری مل گئی۔
اگرچہ میں صرف پانچ جماعت پاس تھی اور ہماری کمیٹی میں مجھ سے زیادہ پڑھےلکھے لوگ بھی تھے لیکن سب نے مجھے آگے بڑھایا۔ اس دوران ہر مرحلے پر ہماری ٹریننگ ہوئی اور ہمیں سکھایا گیا کہ ہمیں اپنی ٹیم اور دوسری خواتین کو کیسے لے کر چلنا ہے۔ آج سب نے دیکھ لیا کہ ایک معمولی پڑھی لکھی کیسے پراعتماد انداز میں سب سے گفتگو کر سکتی ہے۔
یہاں "چھوٹا خاندان" ہونا میرے خوب کام آیا اسی وجہ سے میں ادارے اور کام کو زیادہ وقت دے سکی۔ میرے تینوں بچے پڑھتے ہیں، میں چاہتی ہوں کہ میری بیٹی بڑی ہو کر استاد بنے۔
کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے علاقے میں کوئی مقامی استاد نہیں ہے اس لیے یہاں دور دراز کے علاقوں سے ٹیچر آتی ہیں جس کی وجہ سے لڑکیوں کی پڑھائی کا حرج ہوتا ہے۔
ڈگ موری میں ایک چھوٹی سی سہی لیکن ڈسپنسری ہے جہاں لیڈی ہیلتھ ورکر کے علاوہ ڈاکٹر بھی ہے لیکن بڑےہسپتال کے لئے ٹنڈو محمد خان جانا پڑتا ہے۔
غربت اور ناخواندگی کی وجہ سے زیادہ تر غریب حاملہ خواتین خرچے سے بچنے کے لیے دائی کے پاس جاتی ہیں اس لیے زچہ اور بچہ کی اموات بہت زیادہ ہیں جس پر لوگ اوپر والے کی مرضی سمجھ کر صبر کر لیتے ہیں۔ تاہم، میڈیا اور سرکاری سطح پر چلنے والی بنیادی صحت کی لیڈی ہیلتھ ورکرز کی وجہ سے تبدیلی آ رہی ہے اور اب خواتین ہسپتال جانا چاہتی ہیں۔
مجھ سمیت ہماری ٹیم لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے بھی آگاہ کرتی ہے اور ساتھ ہی انھیں بنیادی قوانین کے بارے میں بھی بتاتی ہے۔ ہم لوگوں کو سمجھاتے ہیں کہ بنیادی دستاویزات جیسے قومی شناختی کارڈ، نکاح نامہ اور بچوں کی پیدائش کے سرٹیفیکٹ بنوانا ضروری ہے۔ ہماری برادری میں بھی بچوں کی جلدی شادی کا رجحان رہا ہے اس لیے ہم لوگوں کو قانون سے آگاہ کرتے ہیں کہ اٹھارہ سال پہلے شادی قانوناً جرم ہے۔
میری اپنی بچی ابھی چھوٹی ہے اور وہ جب پڑھ لکھ جائے گی تو ہی شادی کروں گی۔ میں اس کے باپ اور دادا کو کہتی رہتی ہوں کہ کیا ہوا میں تعلیم مکمل نہیں کرسکی لیکن میں اپنی بیٹی کو پڑھاؤں گی۔ اگر وہ شادی کے لیے کسی اچھے انسان کو پسند کرے گی تو میں اپنی بیٹی کی پسند کو ترجیع دوں گی اور اس کے فیصلے میں اس کے ساتھ کھڑی رہوں گی۔
ہمارے علاقے میں عورتوں کے حقوق کے لیے ابھی بہت کام کرنا ضروری ہے۔ میں یہ تو نہیں کہہ رہی کہ ہمارے ہاں مار پیٹ کا رجحان ختم ہو گیا ہے لیکن وقت کے ساتھ کم ضرور ہوچکا ہے۔ ہمارا کام آگاہی دینا ہے اور میں اس کام کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ کر کر رہی ہوں۔