'آسٹریلیا سے جیتنے کے لئے نہیں کھیل رہے!'

بناء جیت کی سوچ کے نئے کھلاڑیوں کو بین الاقوامی سطح پر موقع فراہم کر کے کیا ان کے جذبات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے؟۔ فوٹو: فائل

ابوظہبی: ورلڈ چیمپئن آسٹریلیا کے خلاف دو بین الاقوامی ون ڈے مسلسل 8 وکٹ سے ہارنے کے بعد ٹیم پاکستان کے ڈریسنگ روم میں نہ تو کوئی تناؤ ہے، نہ ہی شکست کے بعد گرین شرٹس کے کھلاڑی کسی قسم کے دباؤ کا شکار ہیں اور تو اور ماضی میں گراؤنڈ کے اندر اترتی چڑھتی صورت حال پر چہرے پر عجیب و غریب تاثرات سجانے والے کوچ مکی آرتھر کا چہرہ بھی قدرے سپاٹ ہی نظر آیا۔

شارجہ کے دوسرے ون ڈے کے بعد کپتان شعیب ملک کا یہ بیان کہ 'آئندہ مقابلوں میں جیت سے زیادہ باہر بیٹھے کھلاڑیوں کو موقع دینا اولین ترجیح ہوگی'، انتہائی حیران کن نوعیت کا نظر آتا ہے۔

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ بناء جیت کی سوچ کے نئے کھلاڑیوں کو بین الاقوامی سطح پر موقع فراہم کر کے کیا ان کے جذبات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ کیوں کہ کھیل میں ہار جیت ہی دو بنیادی عنصر ہوا کرتے ہیں، اگر پہلے ہی یہ کہہ دیا جائے جیسا شعیب ملک نے فرمایا کہ ہم سیریز جینے کے لئے نہیں کھیل رہے، تو یہ کہاں کی منطق ہے؟

ایسا سب کچھ اس وقت کیا جارہا ہے، جب ورلڈ کپ 2019ء کی شروعات میں دو ماہ باقی ہیں اور ٹیم کو ایک یونٹ بنانے کے بجائے تجربات کی نظر کیا جارہا ہے.

حیران کن طور پر آسڑیلیا کے خلاف ون ڈے سیریز میں کھلائے جانے والے ٹیسٹ ٹیم کے اراکین محمد عباس، یاسر شاہ، شان مسعود اور حارث سہیل ایک دن کی کرکٹ میں قدرے متاثر کن پرفارمنس نہیں پیش کر سکے۔

شارجہ کے پہلے ون ڈے میں 115 گیندوں پر حارث سہیل کی 101 رنز کی ناقابل شکست اننگز ان کے ذاتی ریکارڈ کے لئے زیادہ مؤثر ہی کہی جا سکتی ہے جب کہ شان مسعود کے ساتھ اننگز کے آغاز میں رنز کی پیاس بجھانے کے لئے امام الحق کی بے چینی خلاصہ کر رہی تھی کہ انھیں اپنے پارٹنر کے سست کھیلنے کے انداز پر بیٹنگ کے لیے ساز گار پچ پر رنز بٹورنے کی جلدی ہے۔

ٹیسٹ کرکٹ کے جادوگر یاسر شاہ کا شارجہ کے دونوں ون ڈے میں جادو نہیں چلا، محمد عباس کو ابوظہبی کے تیسرے ون ڈے میں باہر کر کے جنید خان کو کھلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

البتہ ان تمام باتوں کے ساتھ ورلڈ کپ کے لئے تیاریوں کے حوالے سے تحفظات کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، لیکن بظاہر چیف سلیکٹر انضمام الحق اور کوچ مکی آرتھر کی سمت اس حوالے سے سمجھ سے باہر دکھائی دیتی ہے۔

ورلڈ کپ سے دو ماہ پہلے آسٹریلیا کے مقابلے پر سیریز میں غیر سنجیدگی کسی کے سمجھ نہیں آرہی اور ورلڈ کپ کی منصوبہ بندی کے تناظر میں دونوں حضرات کا مستقبل تاریک ہی دکھائی دے رہا ہے۔

اگرچہ یہ بات بھی سب ہی جانتے ہیں کہ بطور چیف سلیکٹر انضمام الحق کو بھاری تنخواہ پر بورڈ سے منسلک کرنا سابق چئیرمین نجم سیٹھی کے لیے پسندیدہ فیصلہ نہیں تھا اور مکی آرتھر کا کوچ بنانا بھی پی سی بی کے لئے ایک مجبوری کا ہی فیصلہ تھا، اور اب یہ دونوں افراد جس انداز میں پچھلے دو سال سے قومی ٹیم کے معاملات کو  لے کر چل رہے ہیں، ورلڈ کپ جیسے بڑے اور کٹھن امتحان میں قومی ٹیم کا سرخرو ہونا گزرتے وقت کے ساتھ ایک بڑا سوال بنتا جارہا ہے۔

مزید خبریں :