10 اپریل ، 2019
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت مانے جانے والے بھارت میں انتخابات کا پہلا مرحلہ کل ہو گا۔ اس وقت سیاستدان صرف انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اور اس کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کر رہے ہیں۔
2014 کی انتخابی رپورٹس کے مطابق، بھارت میں 1703 رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں تھیں، جن میں سے 466 جماعتوں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ اتنی زیادہ سیاسی جماعتیں ہونے کے باوجود کئی بڑی ریاستوں میں اہم انتخابی دنگل کانگریس ، بھارتیہ جنتا پارٹی، بھوجن سماج پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، عام آدمی پارٹی اور بھارتیہ راشٹریہ کے درمیان ہوگا۔ پندرہویں بھارتی وزیراعظم کے لیے اصل اور کانٹے دار مقابلہ بی جے پی کے نریندر مودی اور گانگریس کے راہول گاندھی کے درمیان ہے۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق لوک سبھا کے لیے انتخابی عمل 11 اپریل سے شروع ہو کر 19 مئی کو ختم ہوگا۔ انتخابی نتائج کا اعلان 23 مئی کو کیا جائے گا۔بھارت میں ووٹرز کی تعداد بڑھ جانے کی وجہ سے ووٹ ڈالنے کا عمل سات مراحل میں طے کیا جائے گا۔ اس بار ووٹرز کی تعداد 900 ملین تک جا پہنچی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں یہ تعداد 830 ملین تھی۔
بھارتی سیاسی تاریخ میں گزشتہ انتخابات یعنی 2014 کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ 30 سال بعد بھارت میں کسی جماعت اتنی واضح اکثریت حاصل کی تھی۔
اگر مودی کے پانچ سالہ دور پر نظر ڈالیں تو اس دور میں بھارت میں اقلیتوں کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ "اچھے دن آنے والے ہیں " اور "میں بھی چوکیدار " کا نعرہ لگانے والی بی جے پی کے حالیہ دور میں بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو انتہاپسندی کا نشانہ بنایا گیا۔ اسی دور میں مسلمانوں سے نفرت اس انتہا کو پہنچی کہ کئی مسلم شہروں اور علاقوں کے نام تبدیل کرکے ہندو نام رکھے گئے۔
نریندر مودی نے 2014کی انتخابی مہم کے دوران عوام سے وعدہ کیا تھا کہ بھارتی معیشت اور صعنتی ترقی کو فروغ دیا جائے گا تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوسکیں ۔ساتھ ہی زراعت اور دیہی ترقی پر بھی کام کیا جائے گا۔ لیکن 31 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی بی جے پی اپنے انتخابی وعدوں کا پاس نہیں رکھ سکی۔
مودی سرکار نے اپنی سیاست چمکانے اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کے لیے پاکستان سے سرحد پر چھیڑ چھاڑ کی اور اس کشیدگی کو ممکنہ جنگ تک لے گئی۔
اسی طرح بی جے پی کی پوری کوشش تھی کہ الیکشن سے پہلے بابری مسجد کا عدالتی فیصلہ آجائے اور وہ اس پر خوب سیاست کریں۔
لیکن اس تمام تر صورتحال کے باوجود بھارت کی گزشتہ پانچ سال کے دوران ترقی کی شرح یعنی جی ڈی پی 7 فیصد کے اردگرد رہی لیکن وہاں غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھ گیا۔ مودی حکومت کا سارا زور بھارت کے بین القوامی چہرے کو بہتر بنانے پرلگا رہا۔ جس کے لیے انھوں نے کئی غیر ملکی دورے بھی کیے۔ اکنامک ٹائم کی رپورٹ کے مطابق مودی سرکار نے غیر ملکی دوروں پر دوہزار اکیس کروڑ خرچ کیے۔
نریندر مودی کے اس دور میں کئی متنازع فیصلے بھی سامنے آئے مثلاً اپنے دور کے آغاز میں انہوں نے "نوٹ بندی " کا اعلان کیا اور مہینوں عوام کو قطاروں میں لگائے رکھا۔ اسی طرح انہوں نے کبھی "ادھار کارڈ" کے نام سے عوام کو رام کرنے کی کوشش کی تو کبھی انہوں نے دنیا کا بلند ترین مجسمہ بنانے پر پیسہ پانی کی طرح پیسہ بہایا۔
ٹائم آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق 2013 کے بعد سے ہر سال بھارت میں 12 ہزار کسان خودکشیاں کرتے رہے لیکن مودی سرکار کو اس کا خیال 26 فروری ، 2019 کو پہلی دفعہ اس لیے آیا کہ انہیں نومبر میں ہونے والے لوک سبھا کے نتائج میں بری طرح شکست ہوئی۔
ان تمام ناکامیوں کے بعد مودی نے ہمیشہ کی طرح پاکستان سے کشیدگی کو انتخابی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور اپنی ناہلی سے دونوں ملکوں کو جنگ کے دہانے پر لے جانے کی کوشش کی جسے پاکستانی فوج اور حکومت نے بہترین حکمت عملی سے ناکام بنایا اور مودی کو دنیا بھر میں شرمسار کیا۔
اس کے برعکس کانگریس کی انتخابی مہم مودی کی ناکام پالیسیوں اور غریبوں سے نئے وعدوں کے گرد گھومتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی عوام پر کس کا زور چلتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔