08 اپریل ، 2019
حوالات کی سیر، طیارہ ضبط اور تین ہزار روپے جرمانہ۔ جی ہاں یہ تھا انجام پاک پتن کے رہائشی محمد فیاض کی دو سال تک دن رات محنت کا جس نے طیارے کی چیکنگ کرائی، نہ رجسٹریشن اور نہ ہی فلائنگ کی کوئی تربیت حاصل کی۔
چند روز قبل پولیس نے پاک پتن کے محمد فیاض کو بغیر لائسنس اور بغیر کسی اجازت نامے کے خود ساختہ تیار کردہ ہوائی جہاز اڑانے کی کوشش پر گرفتار کر لیا اور اس کا جہاز بھی حراست میں لے لیا تھا۔
فیاض کا قصور یہ تھا کہ اس کے پاس جہاز اڑانے کا لائسنس نہیں تھا، طیارے کے کاغذات نہیں تھے، انجن نمبر اور چیسس نمبر بھی نہیں تھے۔
تاہم اگلے ہی روز عدالت نے محمد فیاض کو 3 ہزار روپے جرمانہ کر کے رہا کر دیا اور پھر اب اسے اس کا جہاز بھی دوبارہ واپس مل گیا۔
پولیس نے کارروائی کے مطابق اور فیاض نے بھی اپنی سمجھ بوجھ کے حساب سے کچھ غلط نہیں کیا تھا۔
فیاض کو تو بس جستجو تھی اپنا طیارہ بنا کر اڑانے کی سو اس نے دو سال کی محنت کے بعد یہ کر دکھایا تھا۔
فیاض نے یہ تو جان لیا کہ طیارہ بنایا کیسے جاتا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اسے رجسٹر کہاں کرایا جاتا ہے، اور اس کی فلائنگ کہاں سے سیکھی جاتی ہے۔
اس پوری کہانی میں سارا مسئلہ تھا بنیادی شعور کا، جس کا فقدان شاید ہم سب میں ہے اور اس کا ذمہ دار ہر ادارہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے اس کام کے لیے بہتر ہوگا کہ عوامی شعور و آگاہی کا ادارہ بنایا جائے جو اہم اداروں اور اُمور کے بارے میں عوام کی رہنمائی کرے۔
قید سے رہائی اور طیارہ واپس کرنے کے بعد حکومت نے محمد فیاض کی جستجو کا اعتراف کرتے ہوئے اسے 60 ہزار روپے انعام دیا ہے لیکن محمد فیاض اور اس جیسے دوسرے نوجوانوں کا اصل انعام تو وہ سرپرستی ہے جو انہیں علم اور تحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے کیلئے درکار ہے۔