15 اپریل ، 2019
نیا پاکستان بنے 8 ماہ سے زائد ہو گئے۔ لیکن ایسی بدقسمتی ہے کہ پرانے پاکستان کے مسائل، وزیراعظم عمران خان کے نئے پاکستان میں بھی جونک کی طرح قوم کا خون پی رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ آٹھ ماہ میں کوئی حکومت بھی پاکستان کو مشکلات سے نہیں نکال سکتی لیکن خان صاحب مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے پاکستانی قوم کو ایسے سہانے خواب دکھائے ہیں کہ پوری قوم مسائل کے حل کیلئے اتاولی ہوئی جارہی ہے۔
خان صاحب، آپ نے قوم کو شعور بخشا ہے۔ آپ نے عوام کو باور کروایا ہے کہ ستر سالوں سے چلتے دقیا نوسی نظام کو رد کردیں۔ جس کی وجہ سے عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیے اور آپ کو وزیراعظم بنایا۔
اب خان صاحب حالت یہ ہے کہ بیروزگاری اور مہنگائی سے ستائی عوام کو امید سے ہے کہ آپ ناصرف مسائل حل کریں گے بلکہ اُن تمام وعدوں کو بھی پورا کریں گے جو آپ نے نے اور آپ کی پارٹی کے رہنماؤں نے حکومت میں آنے کیلئے عوام سے کئے تھے۔
خان صاحب آپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جولائی 2018 کے انتخابات میں عوام نے ووٹ آپ کو دیے ۔ آپ کے وسیم اکرم پلس (عثمان بزدار)، اوپنننگ بیٹسمین (اسد عمر) یا حکومت کے پیچھے کھڑے وکٹ کیپر جہانگیر ترین کو نہیں۔ آپ نے اپنی کابینہ کی ٹیم خود منتخب کی ہے ۔ اس کے باوجود کہ ان کی اکثریت مشرف دور میں آزمائی جاچکی ہے عوام نے آپ کے انتخاب پر بھروسا کیا۔
حکومت سنبھالتے ہی خان صاحب آپ نے ایک کروڑ نوکریاں دینے اور پچاس لاکھ گھر بنانے کی خوش خبری سے حکومتی اننگز کا آغاز کیا تھا۔ آپ نے دوست ممالک سے ملنے والے قرضوں کی نوید تو سنائی ہے لیکن ان آٹھ ماہ میں ایک عام پاکستانی کو ایک ٹکے کا بھی ایسا فائدہ نہیں ہوا کہ وہ کہے، “ دیکھا یہ ہے نیا پاکستان”۔
حالات اب یہ ہیں خان صاحب کہ،کسی کو نہیں معلوم کہ دوست ممالک سے ملنے والے قرضے گئے کہاں ہیں؟ کسی کو نہیں معلوم کہ پانچ ارب کی جو کرپشن (بقول آپ کے) نواز دور میں روزانہ ہوتی تھی،وہ پانچ ارب اب کہاں جاتے ہیں۔ گیس کی قیمتوں میں کئے جانے والے ایک سو چالیس فیصد اضافے سے ملنے والی رقم کس کے کھیسے میں جارہی ہے۔
خان صاحب، اب آپ کو سمجھ لینا چاہیے کہ آپ کے حکم کے عین مطابق عوام پچھلے حکمرانوں کو کرپٹ اور نااہل قرار دے چکی ہے۔ اس کے باوجود کہ پچھلی حکومت نے توانائی کے مہنگے ترین منصوبے حاصل کردہ قرضوں سے لگا کر ہی سہی بجلی کی لوڈ شیڈنگ ضرور ختم کردی تھی۔
خان صاحب، آپ کو بس یہ سمجھنا چاہیے کہ جس عوام کی نوے فیصد اکثریت انگلش سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس قوم کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور برآمدات و درآمدات میں عدم توازن سے کوئی لینا دینا نہیں۔ جو عوام بلاول بھٹو کی انگریزی تقریر سمجھنے کے قابل نہیں، وہ عوام اس حقیقت کو سمجھنے کے قابل بھی نہیں کہ کیسے اسحاق ڈار نے بیرونی قرضے لے کر ڈالر کی قدر میں اضافہ نہیں ہونے دیا۔ مہنگا ترین فرنس آئل خریدنے والی نواز لیگ کی حکومت چاہے جہاں سے مرضی فرنس آئل خریدتی تھی۔ خان صاحب، عوام کو بس یہ یاد ہے کہ نواز لیگ دور کے آخر میں بجلی جانا بند ہوگئی تھی۔
اب آپ کی حکومت اگر کہے کہ گردشی قرضوں کی وجہ سے عوام کو لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تو پھر خان صاحب ہمیں اشتہاری اسحاق ڈار کی یاد آئے تو گلا مت کیجیے گا۔
خان صاحب، دوست ممالک سے قرضہ ملنے کو آپ جو اپنی کامیابی بتاتے ہیں۔ اس کا فائدہ عوام کو تب ہو گا جب آپ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کریں گے، بجلی اور گیس سستی کریں گے۔ اشیا خوردونوش کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں زمین پر لائیں گے۔ تنخواہ دار طبقے کو تنخواہوں پر عائد ٹیکس میں چھوٹ دیں گے اور بنکوں سے کیش نکلوانے پر عائد ٹیکس کم کریں گے۔ نئے کاروبار شروع کرنے پر سہولیات دیں گے اور جائیداد کی خریدوفروخت پر عائد ڈیوٹیوں میں کمی کریں گے۔
خان صاحب، عوام کو آج بھی آپ پر یقین ہے کہ آپ کرپٹ نہیں۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ جو پہلے بیڈ کرپٹ تھے اب آپ کی کابینہ میں شامل وہی وزیر گُڈ کرپٹ ہیں۔ یہ بھی مان لیا کہ دہائیوں سے چلتے کرپٹ نظام کو ٹھیک کرنے میں وقت لگتا ہے۔ یہ بھی مان لیا کہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے مشکل فیصلے لینا پڑتے ہیں۔
لیکن خان صاحب، غریب، مظلوم اور ستائی عوام کو یہ تو بتا دیں کہ آپ کتنا اور کب تک عوام کو پچھلی حکومتوں کو منتخب کرنے کی سزا دیں گے؟ اتنا تو بتا دیں کہ بجلی، گیس، پٹرول اور ٹیکسوں میں کئے گئے اضافے کب تک کیلئے کئے گئے ہیں اور عوام کو کرنے عرصے بعد نئے پاکستان میں آپ کے وعدوں کے عین مطابق عوام کو ریلیف کب ملے گا۔ کوئی تو ٹائم لائن دے دیں ۔
خان صاحب جب سرجن کوئی سرجری کرتا ہے تو خوب چیر پھاڑ کرتا ہے۔ مریض کو بے ہوش کرکے ہاتھوں کے علاوہ مختلف اوزار بھی استعمال کرتا ہے۔ طبی آلات کے ذریعے سینہ چاک کرتا ہے لیکن خان صاحب، دوران آپریشن مریض کا بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کی ذمہ داری بھی سرجن کی ہی ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ مریض کی سرجری تو کامیاب ہوجائے لیکن مریض بلڈ پریشر میں اضافے کی وجہ سے اللہ کو پیارا ہوجائے۔
لہٰذا خان صاحب، معیشت کا آپریشن ضرور کریں لیکن مریض قوم کی نازک حالت کو بھی ذہن میں رکھیں۔ یہ قوم آپ سے سرجری کروانے پر اس لئے راضی ہوئی ہے کہ آپ کرپٹ نہیں ہیں اور آپ نے پاکستان کو پہلی اور آخری بار 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جتوایا تھا۔ لیکن کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ کوئی اس قوم کو یاد دلا دے کہ 1983 اور 1987 کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستانی ٹیم کے کپتان آپ ہی تھے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔