10 مئی ، 2019
اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران سابقہ فاٹا کی نشستوں سے متعلق 26 ویں آئینی ترمیم کا بل منظوری کے لیے ایوان میں پیش کردیا گیا۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ تاخیر سے شروع ہوا، تو اس موقع پر خیبر پختونخوا میں ضم شدہ قبائلی علاقے (سابقہ فاٹا) سے منتخب رکن اسمبلی محسن داوڑ نے سابقہ فاٹا کی نشستوں سے متعلق 26ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا۔
محسن داوڑ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سب نے اتفاق رائے سے بل کو لانے کا فیصلہ کیا اور بل میں تجویز کیا کہ قومی اسمبلی میں قبائلی علاقوں کی موجودہ 12 نشستیں برقرار رکھی جائیں۔
محسن داوڑ نے کہا کہ بل میں تجویز دی ہے کہ خیبر پختونخوا میں ضم شدہ اضلاع کی نشستیں 24 کی جائیں۔
بعد ازاں قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے رکن سید نوید قمر نے تحریک پیش کی کہ 13 مئی (پیر) کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے ازسرنو تعین کیلئے آئینی ترمیمی بل 2019ء زیر غور لانے کیلئے ایوان کی معمول کی کارروائی اور ایجنڈا معطل کیا جائے۔ قومی اسمبلی نے اس تحریک کی منظوری دے دی۔
بل کی حمایت کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ 80 کی دہائی اور نائن الیون کے بعد 2 آمروں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جنگیں لڑیں جن کا قومی مفاد سے کوئی تعلق نہ تھا۔ فاٹا کے عوام پر احسان نہیں کر رہے، یہ ان کا حق ہے، ریاست ماں ہوتی ہے، وہ نشتر نہیں چلاتی، زخموں پر مرہم رکھتی ہے۔
وزیر دفاع پرویز خٹک کا کہنا تھا جن علاقوں کو علاقہ غیر کہا جاتا تھا اب وہ اپنا علاقہ بن گیا ہے، پورا پاکستان قبائل کے ساتھ کھڑا ہے۔سالانہ 100 ارب روپے سابقہ فاٹا کے علاقوں میں خرچ کیے جائیں گے۔
وزیر دفاع نے اسپیکر کا دفاع کرتے ہوئے کہا اپوزیشن ان پر تنقید کرے گی تو وہ بھی جواب دیں گے ،غصہ انہیں بھی آتاہے۔انہوں نے اسپیکر کو 'ہمارا اسپیکر' بولا تو راجہ پرویز اشرف نے لفظ 'ہمارا ' کارروائی سے حذف کرنے کا مطالبہ کر دیا جس پر اسپیکر بولے وہ سب کےاسپیکر ہیں۔
ایم ایم اے کے مفتی عبدالشکور نے کہا کہ تمام صوبے اپنے حصے کا 3 فیصد سابقہ فاٹا کو دیں تو ان کی مہربانی ہوگی، علی وزیر نے کہا کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ آئینی ترمیم کے بعد 6 ماہ میں الیکشن کرائے جائیں۔
بعد ازاں سپیکر اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا اجلاس پیر 13 مئی کو دوپہر 12 بجے تک کیلئے ملتوی کردیا۔
گزشتہ روز اجلاس میں حکومت اور اپوزیشن اراکین نے ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے پر شدید تنقید کی اور ایوان میں کارروائی کے دوران ہنگامہ ہوتا رہا۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا اظہار خیال کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومتی نااہلی کی وجہ سے عوام مہنگائی کے سونامی میں ڈوب رہے ہیں، اگر آئی ایم ایف سے ڈیل پارلمنٹ سے منظور نہ کروائی گئی تو اسے قبول نہیں کریں گے۔
بلاول بھٹو نے حکومت سے سوال بھی کیا کہ ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں تعیناتیاں آئی ایم ایف کر رہا ہے۔