Time 10 مئی ، 2019
پاکستان

30 ارب روپے مالیت کی 'دشمن کی جائیدادوں' پر بااثر افراد تاحال قابض

1965 اور 1971 کی جنگ کے پاکستان سے بھارت یا بنگلہ دیش جانے والوں کے گھر، جائیدادیں، کاروبار، کمرشل جائیدادیں اور زرعی زمینوں کو 'دشمن کی جائیداد' کا نام دیا گیا — فوٹو: جیو نیوز 

اسلام آباد: ملک بھر میں 30 ارب روپے مالیت کی ’دشمن کی جائیدادوں‘ پر بااثر افراد تاحال قابض ہیں۔ 

پاکستان میں لاکھوں ایکڑ زرعی زمین، سیکڑوں قیمتی مکان اور قیمتی جائیدادیں ایسی ہیں جن کا کنٹرول حکومت کے پاس ہونا چاہیے تھا لیکن ان پر با اثر سیاسی، کاروباری شخصیات اور بیوروکریٹس قابض ہیں۔

یہ اُن ہزاروں خاندانوں کی جائیدادیں ہیں جو 1965 اور 1971 کی جنگ کے دوران اپنا گھر بار، قیمتی جائیدادیں، کاروبار، کمرشل جائیدادیں اور زرعی زمینیں چھوڑ کر پاکستان سے بھارت یا بنگلہ دیش چلےگئے تھے۔ 


اُس وقت ان جائیدادوں اور زمینوں کا کنٹرول حکومت نے لے لیا تھا اور اسے ’Enemy properties‘ یعنی دشمنوں کی جائیداد کا نام دیا گیا تھا۔

دشمن کی جائیداد کے زیادہ تر اثاثے پنجاب اور سندھ کے مختلف شہروں کراچی، سکھر، روہڑی، لاہور، اسلام آباد، پنو عاقل ، تھر پارکر اور سندھ کے دیگر علاقوں میں ہیں۔

پاکستان سے چلے جانے والے افراد کی ملکیت میں رہنے والے ان اثاثوں کی مالیت اندازے کے مطابق 30 ارب روپے کے قریب ہے لیکن اب تک اس پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے بلکہ ان جائیدادوں کا 95 فیصد حصہ غیر قانونی طور پر با اثر شخصیات کے قبضے میں ہے۔

اس ساری صورتحال کے باوجود جائیدادوں کی دیکھ بھال کیلئے 70 کی دہائی میں اینیمی پراپرٹیز سیل بنایا گیا جس پر وفاقی حکومت سالانہ 30 کروڑ روپے خرچ کرتی ہے، اس کے انتظامی امور سیکریٹری وزارت مواصلات کے پاس ہیں۔

جیو نیوز کی تحقیقات کے مطابق زیادہ تر قیمتی جائیدادیں جن میں ولاز، قدیم مکان، حویلیاں، بنگلے اور کمرشل پلاٹس شامل ہیں جو کہ سندھ، پنجاب اور اسلام آباد کے مختلف اضلاع میں موجود ہیں۔

اس میں 2 لاکھ 20 ہزار ایکڑ زمین، 287 دکانیں ، 11 کمرشل پلاٹس اور 247 مکانات تھر پارکر میں ہیں جن پر قبضہ ہے جب کہ 71 پلاٹ اور 70 دکانیں سکھر، 50 فلیٹس، ایک مکان اور 11دکانیں جیک آباد میں ہیں۔

تحقیقات کے مطابق 6 ایکڑ کمرشل زمین روہڑی، 400 ایکڑ شکار پور اور 57 ایکڑ زمین اور ایک مکان سانگھڑ میں باثر افراد کے قبضے میں ہے جبکہ زرعی زمینیں،  عمارتیں براہ راست سیاسی اور کاروباری شخصیات، حاضر اور ریٹائرڈ بیوروکریٹس یا پھر ان کے فرنٹ مینوں کے قبضے میں ہے اور یہاں تک اسلام آباد میں اینیمی پراپرٹیز سیل کے دفتر پر بھی سابق سیکریٹری نیشنل ہائی وے اتھارٹی کا قبضہ ہے۔

جیو نیوز کی تحقیقات کے مطابق آفیشل دستاویز یہ بتاتے ہیں کہ زیادہ تر قیمتی پلاٹس، بنگلوز، حویلیاں، دکانیں اور زرعی زمینوں پر زمینداروں اور سیاست دانوں کا قبضہ ہے جن میں سے ایک درجن کے قریب پارلیمنٹ میں ہیں یا پھر ریٹائرڈ افسران اور ان کے فرنٹ مین کئی سالوں سے اس پر قابض ہیں۔

اس معاملے پر وفاقی وزیر مواصلات مراد سعید نے بھی جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ وزارت مواصلات ان جائیددوں سے ناجائز قبضہ ختم کرانے میں ناکام رہی ہے۔ 

دوسری جانب بھارتی حکومت نے مالی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے برصغیر کی تقسیم اور جنگ کے دوران ہجرت کرکے پاکستان جانے والے افراد کے ضبط کئے گئےکروڑوں ڈالر مالیت کے اثاثوں کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

بھارت میں بھی اپنی جائدادیں چھوڑ کر پاکستان چلے جانے والوں کی زمینیں، مکانات سمیت دیگر اثاثے ’دشمن کی جائیدادوں' کے نگران ادارے کی جانب سے ضبط کر لیے گئے تھے۔

بھارت میں 50 ہزار کے قریب ایسی جائیدادیں ہیں جنہیں گزشتہ ماہ بھارتی حکومت نے فروخت کرنا شروع کیا اور اب تک 23 ہزار جائیدادیں فروخت کی جاچکی ہیں جب کہ باقی جائیدادوں کے فروخت ہونے پر کل 90 ہزار کروڑ روپے حاصل ہوں گے۔

مزید خبریں :