09 جولائی ، 2019
سپریم کورٹ میں اپنی نوعیت کا انوکھا کیس آگیا، خود کو آئینی طور پر 2002 سے 2007 تک کا صدرِ پاکستان ماننے والے میجر ریٹائرڈ فیصل نصیر عدالت عظمیٰ میں پیش ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف وردی میں صدر منتخب نہیں ہوسکتے تھے اس لیے بطور دوسرے امیدوار کے میں اس دور کا آئینی صدر ہوں۔
اس موقع پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ اب تک کہاں تھے؟ آپ کی مدت شروع ہو کر ختم بھی ہوگئی، آپ کہتے ہیں صدر بن کر آپ دہشت گردی ختم کر دیتے، ہم سب تو ایسے مسیحا کے انتظار میں رہتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں 2002 سے 2007 تک صدر مملکت ہونے کا دعویدار سامنے آگیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس نے درخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میجر صاحب آپ کب بلامقابلہ پاکستان کے صدر منتخب ہوئے؟
فیصل نصیر نے کہا کہ میں 2002 میں بلا مقابلہ صدر پاکستان بنا اور وہ بھی میجر ریٹائرڈ۔چیف جسٹس نے کہا کہ 2002 میں پرویز مشرف صدر تھے جس پر درخواست گزار نے کہا کہ پرویز مشرف وردی کے ساتھ سیاست اور الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تھے، پرویز مشرف کیخلاف الیکشن کمیشن نے میرا ریفرنس دبا لیا، ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے خلاف میری اپیل بغیر سنے مسترد کردی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل 2450 دن بعد دائر کی گئی، ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد سات آٹھ سال آپ کدھر رہے؟ آپ کہتے ہیں صدر بن کر آپ دہشت گردی ختم کر دیتے، ہم سب تو ایسے مسیحا کے انتظار میں رہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ چھوٹا ریلیف نہیں مانگ رہے، آپ کے حق میں فیصلہ دے دیں تو آپ 2002 میں صدر بن کر 2007 میں اتر بھی گئے۔
درخواست گزار فیصل نصیر خان نے کہا کہ میرے حق میں فیصلے سے پرویز مشرف کے این آر او سمیت تمام اقدامات کالعدم ہو جائیں گے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں عدالت آپ کو صدر لگا دے، صدر پاکستان لگانا عدالت کا کام نہیں ہے، قانون ایسا ریلیف دینے کی اجازت نہیں دیتا۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے درخواست گزار کی نظر ثانی درخواست خارج کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔