حضرت یوشع بن نون علیہ السّلام

حضرت یوشع بن نون علیہ السّلام سے منسوب ایک مزار۔ 

حضرت یوشع بن نون علیہ السّلام 1350 قبلِ مسیح، مِصر میں پیدا ہوئے اور اُن دنوں وہاں فرعون کی حکومت تھی۔ آپؑ کا بنی اسرائیل سے تعلق تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے خادمِ خاص تھے، چناں چہ اُن کی حیاتِ طیبہ کے واقعات میں آپؑ کا بہ کثرت تذکرہ ملتا ہے۔

روایات کے مطابق آپؑ حضرت یوسف علیہ السّلام کے پڑپوتے تھے۔ مؤرخین نے آپؑ کا نسب یوں بیان کیا ہے، یوشع ؑبن نون بن فراہیم بن یوسف ؑبن یعقوب ؑبن اسحاقؑ بن ابراہیمؑ۔ 

گو کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں آپؑ کا بہ طورِ نبی ذکر فرمایا ہے اور نہ ہی کہیں آپؑ کا نام آیا ہے تاہم سورۂ کہف میں دو جگہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے ایک نوجوان رفیقِ خاص کا ذکر ہے اور حضرت اُبی بن کعبؓ سے روایت ہے حضورﷺ نےفرمایا’’ وہ یوشع ؑ بن نون ہی ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری)

نئی ذمّے داریاں

حضرت موسیٰ علیہ السّلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے بیتُ المقدِس آزاد کروانے کے لیے قومِ عمالقہ سے جہاد کرنے گئے، تو بنی اسرائیل نے لڑنے سے انکار کردیا اور کہا ’’تم اور تمہارا پروردگار لڑے، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس سرکشی پر اُنھیں صحرائے تیہ میں قید کردیا، جہاں وہ چالیس سال تک بھٹکتے رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام، حضرت ہارون علیہ السّلام اور حضرت یوشع ؑبن نون بھی اُن کے ساتھ تھے۔ بنی اسرائیل کے وہ تمام لوگ، جنہوں نے جہاد سے انکار کیا تھا، اس طویل عرصے میں مرکھپ گئے۔

ایک دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے ہر قبیلے کا ایک نقیب مقرّر کردیں اور اُنہیں اپنے قبیلے کی قیادت و رہ نُمائی، جہاد کی تربیت اور دیگر معاملات کی ذمّے داری دے دیں۔ دراصل ،یہ ساری تیاری قومِ عمالقہ سے جہاد کے لیے تھی۔ (ابنِ کثیرؒ)قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے’’اور اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا اور اُنہی میں بارہ سردار بنائے اور اللہ نے فرمایا’’ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو اور میرے رسولوں پر ایمان لائو، ان کی توقیر کرو اور اللہ کو قرضۂ حسنہ دو، تو میں تم سے تمہاری برائیوں کو دُور کردوں گا اور تم کو ایسے باغات میں داخل کروں گا، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ پس، جس نے تم میں سے اس کے بعد کفر کیا، تو بے شک وہ سیدھے راستے سے گم راہ ہوا۔‘‘(سورۃ المائدہ12:)حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق بارہ قبائل میں سے بارہ سردار منتخب کیے اور حضرت یوشع بن نون علیہ السّلام کو اُن سب کا سپہ سالار مقرّر کردیا۔ ابھی وادیٔ تیہ کی سزا کی مدّت پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ پہلے حضرت ہارون علیہ السّلام اور پھر دو سال بعد حضرت موسیٰ علیہ السّلام انتقال فرماگئے، تاہم حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے انتقال سے قبل حضرت یوشع علیہ السّلام کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرّر فرمادیا تھا۔کئی مفسّرین نے لکھا ہے کہ اُنھیں نبوّت بھی عطا کی گئی تھی۔

ارضِ مقدّس آزاد کروانے کا حکم

حضرت یوشع علیہ السّلام نے سپہ سالار کی حیثیت سے بیتُ المقدِس کی آزادی کے عظیم مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے بنی اسرائیل کی جنگی تربیت زوروشور سے جاری رکھی۔ بنی اسرائیل کو وادیٔ تیہ میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے مَن و سَلویٰ مل رہا تھا۔ اُن کی کوئی معاشی سرگرمی تو تھی نہیں، سو اُنہوں نے اپنا زیادہ تر وقت فن ِحرب سیکھنے میں صَرف کیا اور جلد ہی جنگی دائو پیچ میں مہارت حاصل کرلی۔ صحرائے تیہ میں قید کے چالیس سال پورے ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع علیہ السّلام کو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر ارضِ مقدّس کی جانب جائو اور قومِ عمالقہ اور دیگر سے جہاد کرکے اپنے آبائو اجداد کی سرزمین آزاد کروائو۔

بنی اسرائیل کی نئی نسل کو اپنے بڑوں کے جہاد سے انکار کی غلطی اور اُس کی پاداش میں قید کا احساس تھا، پھر بیتُ المقدِس تو اُن کا اپنا وطن تھا،لہٰذا وہ خوشی خوشی جہاد کے لیے تیار ہوگئے۔جس وقت حضرت یعقوب علیہ السّلام اپنے گیارہ بچّوں کے ساتھ کنعان سے ہجرت کرکے حضرت یوسف علیہ السّلام کے پاس مِصر جارہے تھے، اُس وقت اُن کے ساتھ خاندان کے صرف 70؍افراد تھے اور اب بنی اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں حضرت یوسف علیہ السّلام کے پڑپوتے، حضرت یوشع علیہ السّلام کی قیادت میں اپنے آبائو اجداد کی سرزمین مشرک اقوام سے آزاد کروانے جارہے تھے۔

فلسطین کی جانب پیش قدمی

حضرت یوشع علیہ السّلام بنی اسرائیل کو لے کر وادیٔ تیہ سے نکلے، تو اُس وقت آپؑ کے ساتھ بنی اسرائیل کے بارہ قبائل کے چھے لاکھ سے زیادہ افراد تھے۔ حضرت یوشع علیہ السّلام نے اُن سب کے ساتھ نہرِ اُردن پار کی اور ’’اریحا‘‘ کے مقام پر پہنچے، جو سب سے بلند اور مضبوط فصیلوں والا قلعہ تھا۔ بنی اسرائیل نے چھے ماہ تک اُس کا محاصرہ جاری رکھا اور پھر ایک روز قلعے کی دیوار کا کچھ حصّہ گرا کر شہر میں داخل ہوگئے، جہاں گھمسان کی جنگ ہوئی۔

اسرائیلی روایات کے مطابق،’’ شہر کا محاصرہ جمعے کو بھی جاری تھا کہ سورج غروب ہونے کا وقت ہوگیا، جس کے بعد ہفتے کا دن شروع ہوجاتا، جس میں بنی اسرائیل پر جنگ اور شکار وغیرہ پر پابندی تھی، تو حضرت یوشع علیہ السّلام نے فرمایا ’’اے ہفتے کا دن! تُو بھی اللہ کے حکم کا پابند ہے اور مَیں بھی۔ پس اے اللہ! اس سورج کو غروب ہونے سے روک دے،‘‘ تو اللہ نے سورج غروب نہ ہونے دیا، حتیٰ کہ حضرت یوشع علیہ السّلام نے شہر فتح فرما لیا۔‘‘ تاہم بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بیتُ المقدِس کی فتح کے موقعے پر پیش آیا تھا۔

مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’سورج کسی انسان کے لیے نہیں روکا گیا، سوائے یوشع علیہ السّلام کے ، جب وہ بیتُ المقدِس کی طرف کُوچ فرما رہے تھے۔‘‘ اس حدیثِ مبارکہؐ سے معلوم ہوا کہ حضرت یوشع بن نون علیہ السّلام ہی نے بیتُ المقدِس فتح کیا اور شمس کا واقعہ اسی کی فتح میں پیش آیا۔ (قصص الانبیاء، ابنِ کثیرؒ)

مشرکین کو عبرت ناک شکست

حضرت یوشع علیہ السّلام بنی اسرائیل کو لے کر سب سے پہلے ارضِ کنعان کے پہلے شہر، اریحا کی جانب بڑھے اور طویل محاصرے اور جنگ کے بعد قومِ عمالقہ کو شکست دی۔ اُس کے بعد کنعان کے دوسرے شہروں کو فتح کرتے ہوئے ارضِ فلسطین میں داخل ہوگئے ۔ اِس طرح اللہ عزّوجل نے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے کنعان، فلسطین اور شام تک کا پورا علاقہ بنی اسرائیل کے حوالے کر دیا۔

علّامہ ابنِ کثیرؒ نے لکھا ہے کہ’’ اس جنگ میں بے شمار مال و دولت ہاتھ آیا، بارہ ہزار مَردوں اور عورتوں کو تہہ تیغ کیا گیا، بہت سے بادشاہوں سے جنگ چِھڑی۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ حضرت یوشع علیہ السّلام نے شام کے اکتیس بادشاہوں پر غلبہ پایا تھا۔

ارضِ مقدّس میں عاجزی و انکساری سے داخل ہونے کا حکم

اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع علیہ السّلام کی قیادت میں بنی اسرائیل کو زبردست فتح سے ہم کنار کیا اور اُنہیں ارضِ مقدّس سمیت اُن کے آبائی وطن کا مالک بنا دیا۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے اُنہیں حکم دیا کہ جب شہر میں داخل ہوں، تو مغرور، متکبّر اور سرکش لوگوں کی طرح داخل نہ ہوں، بلکہ نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ، سَر جُھکا کر رکوع کی حالت میں توبہ و استغفار کرتے ہوئے داخل ہوں اور اپنی زبانوں پر’’حِطّۃ‘‘ کا ورد جاری رکھیں، (یعنی اے اللہ! ہمیں بخش دے) پھر ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے اور جو لوگ نیکیاں کریں گے، اُنہیں اپنی نعمتوں سے مزید نوازیں گے اور سجدۂ شُکر بجا لانا۔ اللہ تمہارے لیے مزید آسانیاں پیدا فرما دے گا۔ 

سورۃ البقرہ میں اللہ عزّوجل فرماتے ہیں’’اور جب ہم نے کہا کہ اس بستی میں داخل ہوجائو اور اس میں جہاں سے چاہو خُوب کھائو، پیو اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا اور’’حِطّۃ‘‘(یعنی اے اللہ! معاف کردے)کہتے جانا،تو ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔‘‘ (سورۃ البقرہ58)سورۃ الاعراف میں ارشاد ہے’’اور جب اُن سے کہا گیا کہ اس شہر میں سکونت اختیار کرلو اور اس میں جہاں سے جی چاہے کھانا، پینا اور جب شہر میں داخل ہو تو ’’حِطّۃ‘‘ کہنا اور دروازے میں داخل ہونا تو سجدہ کرنا، ہم تمہارے گناہ معاف کردیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ دیں گے۔‘‘ (سورۃ الاعراف161)

بنی اسرائیل کی نافرمانی اور اللہ تعالیٰ کا عذاب

حضرت یوشع علیہ السّلام نے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کے یہ احکامات بتائے، وعظ و نصیحت کی اور اُنہیں ان احکامات پر مِن و عن عمل کی تاکید فرمائی، لیکن سرکشی اور ناشُکرا پن تو بنی اسرائیل کی سرشت میں شامل تھا، چناں چہ اُنہوں نے حضرت یوشع علیہ السّلام کی ہدایات کی پروا نہ کی اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے توبہ و استغفار کی بجائے غرور و تکبّر سے اکڑتے، اتراتے، تمسخر و استہزا کرتے شہر میں داخل ہوئے۔ بنی اسرائیل کا ناشُکرا پن، غرور و نخوت، سرکشی و بغاوت اور نافرمانی ایک بار پھر اللہ کی ناراضی کا سبب بنی اور اُن پر عذاب نازل کیا گیا۔سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’پھر اُن ظالموں نے اس بات کو جو اُن سے کہی گئی تھی، بدل ڈالی۔ ہم نے بھی اُن ظالموں پر اُن کے فسق و نافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل کیا۔‘‘ (سورۃ البقرہ59)سورۃ الاعراف میں ارشادِ باری ہے’’مگر جو اُن میں ظالم تھے، اُنہوں نے اس لفظ کو جس کا اُن کو حکم دیا گیا تھا، بدل کر اُس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا، تو ہم نے اُن پر آسمان سے عذاب بھیجا ،اس لیے کہ یہ ظلم کرتے تھے۔‘‘ (سورۃ الاعراف162)؎

حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’بنی اسرائیل کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ شہر میں نہایت عاجزی سے داخل ہوں اور اپنی زبان سے حِطّۃ، حِطّۃ کہتے جاؤ (یعنی استغفار کرتے رہو) لیکن اُنہوں نے یہ کیا کہ زمین پر گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور حِطّۃ کو چھوڑ کر’’ حبتہ فی شعرۃ‘‘ کہنا شروع کردیا یعنی دانہ بالی کے اندر ہے۔‘‘(صحیح بخاری) یعنی اُنہوں نے اللہ سے توبہ اور معافی کی بجائے گندم اور جوکی کی فرمائش کردی۔ اس سے اُن کی سرتابی و سرکشی اور احکام الہیٰ سے تمسخر و استہزا کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

دراصل جب کوئی قوم اخلاق و کردار کے لحاظ سے زوال پزیر ہوجائے، احکامِ الٰہیہ کا مذاق اڑانے لگے، غرور و تکبّر، سرکشی و نافرمانی میں مبتلا ہوجائے، اپنے رسولوں کے احکامات ماننے سے انکار کردے، تو پھر آسمانی عذاب کا آنا یقینی ہے۔ بنی اسرائیل پر جو عذاب نازل ہوا، وہ طاعون کی شکل میں تھا، جس میں ستّر ہزار لوگ مارے گئے۔ (قرطبی)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ طاعون اُس رجز اور عذاب کا حصّہ ہے، جو تم سے پہلے بعض لوگوں پر نازل ہوا۔ تمہاری موجودگی میں کسی جگہ طاعون پھیل جائے، تو وہاں سے مت نکلو اور اگر کسی اور علاقے کی بابت تمہیں معلوم ہوکہ وہاں طاعون ہے، تو وہاں مت جائو۔‘‘ (صحیح مسلم) اُن میں سے ایک جماعت جو حضرت یوشع علیہ السّلام کی ہدایات پر عمل پیرا رہی، وہ طاعون سے محفوظ رہی۔

تابوتِ سکینہ

مؤرخین نے تورات کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب بنی اسرائیل حضرت یوشع بن نون علیہ السّلام کی قیادت میں وادیٔ تیہ سے اپنے آبائو اجداد کی سرزمین کو مشرکین سے آزاد کروانے کے لیے نکلے، تو اُن کے ساتھ ایک مقدّس صندوق بھی تھا، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا پیرہن، عصا، حضرت ہارون علیہ السّلام کے کپڑے، دیگر انبیائے کرامؑ کے تبرکات، تورات کا اصل نسخہ اور دیگر مقدّس و متبرک اشیاء تھیں۔نیز، اُس میں مَن کا مرتبان بھی تھا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اُنہیں حکم دیا تھا کہ مَن کو اپنی آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ کرلو تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ بنی اسرائیل کو کیسے کیسے انعام و اکرام سے نوازا گیا تھا۔

اسرائیلیوں کی نظر میں یہ صندوق اہم وَرثہ اور بہت برکت کی چیز تھا، چناں چہ وہ سفر اور جنگ میں ہمیشہ اُسے اپنے ساتھ رکھتے۔اس صندوق کو’’ تابوتِ سکینہ‘‘ کہنے کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ لکڑی کے صندوق کے لیے تابوت کا لفظ عام طور پر مستعمل ہے، خاص طور پر اُس میں ایسی چیزیں بھی رکھی ہوں، جن کا تعلق انتقال کر جانے والوں سے ہو، تو ایسے صندوق کو تابوت کہہ دیا جاتا ہے اور سکینہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں رکھی گئی متبرک اشیاء سےقلب و جاں کوسکینت اور اطمینان حاصل ہوتا تھا۔

حضرت یوشع علیہ السّلام کی وفات

حضرت یوشع بن نون علیہ السّلام کو اللہ تعالیٰ نے عظیم کام یابیوں سے ہم کنار فرمایا۔ بنی اسرائیل کا ارضِ مقدّس پر قبضہ مستحکم ہوگیا اور وہ اُس میں امن و اطمینان سے رہنے لگے، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت یوشع علیہ السّلام کو اپنے پاس بلالیا۔ اُس وقت اُن کی عُمر ایک سو ستائیس سال تھی۔ آپؑ، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے بعد ستائیس سال حیات رہے۔ آپؑ کا انتقال ارضِ کنعان میں ہوا اور اپنے آبائو اجداد کی قبورِ مبارکہ کے پاس تدفین ہوئی۔

مزید خبریں :