بلاگ
Time 23 ستمبر ، 2019

خان صاحب، اب کس چیز کا انتظار ہے؟

وزیراعظم پاکستان عمران خان — فائل فوٹو

حالات موافق، آب و ہوا سازگار، موسم سہانا اور رفیقوں کا ساتھ ۔۔۔ الغرض آپ کیلئے صورتحال تو اس قدر اچھی ہے کہ اس کی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن آپ ہیں کہ اس سہانے وقت کا لطف بانٹنے کیلئے تیار ہی نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کو ’’سنگھاسن‘‘ سنبھالے اب ایک سال سے کچھ زائد کا عرصہ بیت چکا ہے۔ آپ کو اقتدار میں دیکھنے کیلئے بے چین رہنے والے اور آپ کے دھرنوں جلسوں میں جوک در جوک ہنستے مسکراتے شرکت کرنے والے لوگ اب آپ کے ان کرشماتی احکامات کے منتظر ہیں کہ جن کے ذریعے ان کی زندگیوں میں ہر طرف لطف و کرم کی بارش سی شروع ہو جائے گی اور چہار سو بہار کے رنگ ان کے گرد گھیرا ڈال لیں گے۔

یاد ہیں ناں وہ وعدے اور دعوے جو خواب بنا کر آپ نے اپنے چاہنے والوں کی آنکھوں میں سجا دیئے تھے۔ وہ اچھے دنوں کے دلاسے، بے لاگ و شفاف احتساب کے قصے، آنے والے اچھے وقت کی نوید جو پوری نہیں تو کچھ نہ کچھ اب پوری ہونا شروع ہو جانا چاہئے تھیں۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے، کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا ؟

ایک برس جہاں بہت زیادہ عرصہ نہیں وہیں اتنا کم بھی نہیں۔ کہتے ہیں ناں کہ پوت کے پاؤں پانے میں نظرآجاتے ہیں۔ آپ اور آپ کی حکومت کی اچھی کارکردگی کے اثرات و ثمرات بھی لوگوں کو نظر آنے کے ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ ان تک پہنچنا بھی شروع ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یا تو ابھی ایسا ہونے میں ابھی مزید دیر ہے یا پھر آپ کی حکومت کے ساتھ کچھ زیادہ ہی امیدیں جوڑ دی گئیں تھیں۔

آپ کے متوالے اگر معیشت کی جانب دیکھیں تو بے اختیار دل ہولنے لگتا ہے۔ منفی معاشی اعشاریوں سے مہنگائی کی طولانیوں تک، بے روزگاری کے جبر سے کاروباری کی مندی اور اسٹاک مارکیٹ میں بھونچال سے غریبوں کے استحصال تک، وزیراعظم صاحب معاملات نہایت دگر دکھائی دے رہے ہیں۔ ماضی میں کسی قدر بہتر کارکردگی دکھانے والے گنے چنے شعبوں سے بھی پریشان کن صدائیں سنائی دے رہی ہیں۔ عام آدمی کی پوزیشن کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ دن گزارنا اور تین وقت کی روکھی سوکھی تک پہنچ پانا ایک شدید دقت طلب امر بنتا جا رہا ہے۔

صحت، تعلیم جیسے چیزیں دیکھیں تو جن صوبوں پر آپ اور آپ کے ساتھیوں کی حکومتیں ہیں وہاں بھی اس حوالے سے دودھ اور شہد کی نہریں بہنا اب تک شروع نہیں ہوئی ہیں۔ ان تمام میدانوں میں صورتحال بہلے سے بدتر ہوتی ہی دکھائی دے رہی ہے۔ پانی، بجلی، گیس، ٹرانسپورٹ، بڑے منصوبے، عوامی بھلائی کے پروجیکٹ اور میگا پلان بنتے اور چلتے نظر نہیں آرہے بلکہ گذشتہ ادوار میں کیا گیا کام بھی اب رفتہ رفتہ حال کا ساتھ چھوڑتا دکھائی دے رہا ہے۔

گورننس المعروف حکومتی کارکردگی و عملداری کا دور دور تک پتہ نہیں ہے۔ امن و امان کی صورتحال یہ ہے کہ ایک کے بعد ایک نیا سانحہ واقعہ، قتل ڈکیتی و اغوا کی واردات سامنے آتی ہے، کچھ دن تک میڈیا پر کچھ شوروغوغا رہتا ہے لیکن پھر سب تھک ہار کر کسی نئے واقعے کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں میں تو ایسا لگتا ہے کہ گویا نااہلی دکھانے اور کارکردگی بد سے بدتر کرنے کی کوئی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ہر صوبے میں کسی حوالے سے کوئی امید افزا بات سامنے نہیں آرہی۔

داخلی، خارجی اور سفارتی محاذ آج کل کچھ زیادہ ہی گرم ہیں۔ وزیراعظم اور کابینہ کے دیگر ارکان ملک سے آتے جاتے، بیرون ملک دورے کرتے تو دکھائی دے رہے ہیں لیکن کسی معاملے میں ہمیں ایسی کوئی نئی چیز ہوتی نظر نہیں آرہی کہ جسے ’’ڈیولپمنٹ‘‘ کا نام دے کر دل کو تسلی دی جا سکے۔ پڑوسیوں سے تعلقات بھی گمبھیر ہیں اور دوست ممالک سے بھی اس قدر دوستی کی بھیک نہیں مل رہی جس کی اس سے قبل امید کی جارہی تھی۔ ایف اے ٹی ایف ہو یا آئی ایم ایف، امداد کی باتیں ہوں یا قرض کے معاملات، سب معاملات میں ملوث افراد اور ادارے عوام سے کچھ روٹھے روٹھے نظر آتے ہیں۔

سی پیک اور اس سے منسلک معاملات کے حوالے سے کیے گئے دعوے بھی کچھ ٹھنڈے پڑتے نظر آرہے ہیں بلکہ اب تو حکومتی وزرا اور خود وزیراعظم صاحب نے بھی ان معاملات پر امید دلانا اور بات کرنا تقریباً چھوڑ ہی دی ہے۔

دوسری جانب حکومتی معاشی ٹیم اور کابینہ کے ارکان تو بظاہر حکومتی اقدامات کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کے مخالفین کے دلائل اور عوام کی پتلی ہوتی صورتحال کچھ اور یہ سماں پیش کررہی ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے وزیراعظم نے بھی اس بات کا عندیہ دینا شروع کیا ہے کہ مشکل وقت گزر چکا اور اب عوام تک اچھے اثرات پہنچنا شروع ہوا ہی چاہتے ہیں لیکن اگر عام لوگوں میں جائیں، کاروباری حضرات سے گفتگو کریں تو کسی کو ان باتوں پر زیادہ یقین ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ 

حکومت کو اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ وہ وقت آن پہنچا ہے کہ جب لوگ محض طفل تسلیوں سے مطمئن نہیں ہوں گے اور اب ان کی زندگیوں میں کوئی مثبت تبدیلی نظر آنا شروع ہو جانا چاہیے، ورنہ شاید وہ وقت دور نہیں کہ جب اپوزیشن اور مہنگائی و بے روزگاری سے پریشان حال عوام سڑکوں پر آکر حکومتی اقدامات کےخلاف احتجاج کرنا شروع کردیں اور صورتحال سنبھلنے کی رہی سہی امید بھی ختم ہو جائے۔ وزیراعظم صاحب جان لیجئے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ بہت سخت !


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔