حضرت ذوالکفل علیہ السّلام

شام اور عراق سمیت کئی ممالک میں حضرت دواکفل علیہ السلام سے مزارات منسوب ہیں۔ فوٹو: فائل

قرآنِ کریم میں حضرت ذوالکفل علیہ السّلام کا نام دو مقامات پر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الانبیاء میں فرماتے ہیں’’اور اسماعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفلؑ یہ سب صبر کرنے والے تھے اور ہم نے اُن کو اپنی رحمت کے سائے میں لے لیا تھا۔

بلاشبہ وہ سب صالحین میں سے تھے‘‘ (آیت86-85)۔ سورۂ ص میں فرمایا ’’اور یاد کرو اسماعیلؑ اور الیسع ؑ اور ذوالکفلؑ کو، وہ سب نیک بندوں میں سے تھے‘‘ (آیت۔48)۔

حضرت ذوالکفلؑ کا ذکر دونوں بار حضرت ایّوبؑ کے قصّے کے بعد فرمایا گیا اور شاید اِسی لیے بعض مفسرّین نے اُنھیں حضرت ایّوبؑ کا فرزند بتایا ہے اور اُن کا نام،’’ بشر‘‘ لکھا، یعنی’’بشر بن ایّوب‘‘، جب کہ ’’ذوالکفل‘‘ اُن کا لقب تھا۔

حضرت شاہ عبدالقادرؒ فرماتے ہیں کہ ذوالکفلؑ، حضرت ایّوبؑ کے بیٹے تھے۔ تاہم، بیش تر مفسرّین کے مطابق، آپؑ، اللہ کے نبی تھے ،جو بنی اسرائیل میں مبعوث کیے گئے۔ شروع میں حضرت الیسعؑ کے خلیفہ تھے، بعد میں نبوّت سے سرفراز فرمائے گئے۔

احادیثِ مبارکہؐ میں آپؑ سے متعلق کچھ بھی منقول نہیں۔ تورات اور انجیل بھی تفصیلات دینے سے قاصر ہیں، تو سیر و تواریخ میں بھی سکوت کا عالَم ہے۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اُن کی بعثت کے وقت بنی اسرائیل میں کوئی ایسا خاص واقعہ پیش نہ آیا ہو، جو عبرت و بصیرت اور موعظت کا پہلو رکھتا ہو، کیوں کہ قرآنِ کریم میں عمومی طور پر سابقہ انبیائے کرامؑ کے وہی حالات و واقعات بیان کیے گئے ہیں، جن میں کوئی نصیحت، سبق یا کوئی پیغام ہو اور جس سے اہلِ عقل و دانش عبرت حاصل کریں۔ جیسا کہ سورۂ ھود میں ارشادِ باری ہے’’اور (اے پیغمبرؐ) سابقہ انبیاءؑ کے حالات ہم اس لیے بیان کرتے ہیں تاکہ تمہارے دل کو تسلّی ہو اور مومنوں کے لیے نصیحت و عبرت ہو۔‘‘

حضرت ذوالکفلؑ نبی تھے یا ولی؟؟

حضرت ذوالکفلؑ سے متعلق مفسرّین کی مختلف آرا ہیں۔ بعض اُن کی نبوّت اور بعض اُن کی ولایت کے قائل ہیں۔ امام ابنِ جریرؒ نے اُن کی بابت توقّف اختیار کیا ہے، جب کہ حافظ ابنِ کثیرؒ فرماتے ہیں کہ قرآنِ پاک میں اُن کا ذکر انبیائے کرامؑ کے ساتھ آنا اور اُن کے لیے تعریف و توصیف کے کلمات سے عیاں ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے برگزیدہ نبی تھے۔ بیش تر مفسرّین اِسی مؤقف کی تائید کرتے ہیں، تاہم بعض کا خیال ہے کہ وہ نبی نہیں، بلکہ عدل و انصاف کرنے والے ایک دانا شخص تھے۔ مشہور مفسرّ، حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ ’’وہ نبی نہیں تھے، بلکہ ایک نیک اور صالح انسان تھے۔‘‘

یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ ذوالکفلؑ، حضرت حزقیلؑ (حزقی ایل) کا لقب ہے، جو نبی تھے اور بنی اسرائیل کی اسیری کے زمانے میں مبعوث فرمائے گئے۔ بائبل کے مطابق، جب بخت نصر نے یروشلم پر حملہ کیا، تو اُس نے وہاں کے ہزاروں یہودیوں کو قیدی بنا لیا اور اُنہیں بھیڑ، بکریوں کی طرح ہانک کر عراق لے گیا، جہاں دریائے خابور کے کنارے ایک نئی بستی آباد کی، جس کا نام’’ تل ابیب‘‘ رکھا۔ وہ یہودی وہاں کئی دہائیوں تک قید رہے اور اُسی قید کے دَوران حضرت حزقی ایلؑ کو نبوّت سے سرفراز فرمایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بائبل میں’’ صحیفہ حزقی ایل ‘‘تو موجود ہے، لیکن حضرت ذوالکفلؑ کے سلسلے میں خاموشی ہے۔

ذوالکفل کی وجہ تسمیہ

ذوالکفل کا لفظی ترجمہ’’صاحبِ نصیب‘‘ ہیں۔ تاہم، اس کا ایک مطلب ’’حق و انصاف کے ساتھ کفالت کرنے والا‘‘ بھی ہے۔ حضرت مجاہدؒ سے منقول ہے کہ حضرت ذوالکفلؑ نیک اور صالح انسان تھے اور چوں کہ وہ اپنی قوم کی کفالت کرتے اور اُن کے درمیان حق و انصاف پر مبنی فیصلے کرتے تھے، لہٰذا قوم نے اُنہیں’’ ذوالکفل‘‘ یعنی’’ کفالت کرنے والا‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپؑ اپنی قوم کے مذہبی رہنما اور اللہ کے نبی تھے۔

قوم کے تمام معاملات کی نگرانی اور کفالت، اُن کے اہم فیصلے حق و انصاف کے تقاضے مدّ ِنظر رکھتے ہوئے کیا کرتے، جس پر قوم آپؑ سے بے حد خوش تھی، چناں چہ اُنھوں نے آپؑ کو ذوالکفل کہنا شروع کر دیا۔ بعض کہتے ہیں کہ آپؑ، حضرت ایّوب علیہ السّلام کے بیٹے تھے۔

ایک شخص کے ضامن بن کر کئی برس تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، لہٰذا ذوالکفل کہلانے لگے۔ ایک اور روایت کے مطابق، مُلکِ شام کا بادشاہ بزرگی، معاملہ فہمی، پاکیزہ اخلاق، شیریں کلامی اور نفیس عادات و اطوار کی وجہ سے آپؑ کو پسند کرتا تھا اور آپؑ اُس کے دربار میں با آسانی چلے جایا کرتے، جہاں بادشاہ مذہبی معاملات میں آپؑ سے مشورے بھی کرتا، لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ بنی اسرائیل سے سخت عداوت رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ اُس نے بنی اسرائیل کے بہت سے مذہبی رہنمائوں کو قید میں ڈال کر اُن کے قتل کا حکم جاری کر دیا۔

حضرت ذوالکفلؑ کو اس بات کا علم ہوا، تو بادشاہ کے دربار میں پہنچے اور درخواست کی کہ ان سب کو قتل کرنے کی بجائے اُن کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ اُن کی اصلاح کر سکیں۔ بادشاہ نے قیدی اُن کے حوالے کر دیئے۔ وہ اُنھیں اپنے گائوں لے آئے، جہاں کئی دن مہمان رکھا اور اُن کے ساتھ نہایت عزّت و احترام کا سلوک کیا، پھر اُنھیں رہا کر دیا۔

یہ مذہبی رہنما جب اپنی قوم میں واپس پہنچے، تو اُنہوں نے آپؑ کو ذوالکفل کے نام سے یاد کیا، جس پر بنی اسرائیل آپؑ کو ذوالکفل کہنے لگے۔ بعض مفسرّین کا کہنا ہے کہ آپؑ نے حضرت الیسعؑ کے خلیفہ کی حیثیت سے وعدہ کیا تھا کہ اُن کی غیر موجودگی میں بنی اسرائیل کی کفالت، اُنھیں شریعتِ موسویؑ کی پیروی اور تورات پر عمل پیرا رہنے کی تلقین کرتے رہیں گے، اسی لیے اُن کا نام ذوالکفل پڑ گیا۔

تینوں شرائط پر پورے اُترے

ابنِ جریرؒ نے مشہور مفسرّ، حضرت مجاہدؒ سے ایک قصّہ نقل کیا ہے اور ابنِ ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے بھی اُسی سے ملتے جُلتے بعض آثار نقل کیے ہیں، جن کی سند منقطع ہے۔ یعنی ان دونوں بزرگوں اور ان سے روایت کرنے والوں کے درمیان کچھ نام نہیں ہیں۔ ایسی سند کو اصطلاح میں’’ منقطع ‘‘کہا جاتا ہے۔

بہرکیف، حضرت مجاہدؒ نے لکھا ہے کہ’’جب حضرت الیسعؑ ضعیف ہو گئے، تو خواہش ظاہر کی کہ’’ کاش! اپنے مرنے سے پہلے کسی نیک اور صالح شخص کو اپنا خلیفہ مقرّر کر دیتا تاکہ وہ میرے بعد دین کے جملہ معاملات بہ خُوبی پورے کر پاتا اور مَیں اپنی موجودگی میں اُس کی تربیت بھی کر دیتا تاکہ مرنے سے پہلے بنی اسرائیل کی فکر سے آزاد ہو جاتا۔‘‘

ایک دن آپؑ نے بنی اسرائیل کو جمع کیا اور فرمایا’’ اے لوگو! تم دیکھتے ہو کہ مَیں بہت بوڑھا ہو چُکا ہوں۔ مَیں چاہتا ہوں کہ اپنی حیات ہی میں تم میں سے کسی صالح شخص کو اپنا خلیفہ نام زَد کر دوں، لیکن مَیں اُسے ہی خلیفہ بنائوں گا، جو تین شرائط پر پورا اُترتا ہو۔ پہلی شرط تو یہ کہ وہ دن میں روزہ رکھتا ہو۔

دوسری یہ کہ شب کو اللہ کی یاد میں مشغول رہتا ہو اور تیسری یہ کہ اُسے غصّہ نہ آتا ہو۔‘‘ اہلِ مجلس پر سکوت طاری تھا کہ اچانک دُور کونے میں بیٹھا ایک عام سا آدمی کھڑا ہوا اور بولا’’ مَیں آپؑ کی تینوں شرائط پر پورا اُتروں گا۔‘‘

حضرت الیسعؑ نے اپنی شرائط دُہراتے ہوئے پوچھا’’ کیا تم تینوں پر پورا اُترتے ہو؟‘‘ اُس نے جواب دیا’’ جی ہاں۔‘‘ آپؑ نے کوئی جواب نہیں دیا اور مجلس دوسرے روز تک کے لیے برخاست کر دی۔ اگلے دن حضرت الیسعؑ نے پھر اپنا سوال دُہرایا۔ مجمع خاموش تھا، وہی شخص کھڑا ہوا اور بولا’’ مَیں آپؑ کی شرائط پر قائم رہنے کا عہد کرتا ہوں۔‘‘ لہٰذا حضرت الیسعؑ نے اُنہیں اپنا خلیفہ بنا لیا اور وہ شخص، حضرت ذوالکفلؑ تھے۔

ابلیس کی ناکامی

ابلیس مجلس کے ایک کونے پر بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اُس سے برداشت نہ ہو سکا، چناں چہ اپنے کارندوں کو حکم دیا’’ ذوالکفلؑ کو راہِ راست سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کرو‘‘، لیکن جلد ہی وہ سب ناکام ہو گئے، تو پھر ابلیس نے یہ کام خود اپنے ذمّے لے لیا۔

حضرت ذوالکفلؑ کا دوپہر کو تھوڑی دیر قیلولے کا دستور تھا۔ ایک دوپہر ابلیس بوڑھے فقیر کے بھیس میں نہایت پراگندہ حالت میں حضرت ذوالکفلؑ کے مکان پر جا پہنچا۔ ابھی آپؑ اپنے بستر پر آرام کی غرض سے لیٹے ہی تھے کہ ابلیس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

آپؑ نے پوچھا’’ کون ہے؟‘‘ ابلیس بولا ’’مَیں ایک مظلوم، ناتواں بوڑھا ہوں اور آپؑ کے پاس انصاف کے لیے حاضر ہوا ہوں۔‘‘ آپؑ نے دروازہ کھولا، تو ایک کم زور اور ضعیف شخص کو کھڑا پایا۔ آپؑ اُس سے بات بھی نہ کر پائے تھے کہ شیطان نے اپنی قوم کے ظلم و ستم کی ایک درد بھری جھوٹی داستان سُنانی شروع کر دی اور اُسے اتنا طول دیا کہ حضرت ذوالکفلؑ کے آرام کا وقت نکل گیا اور شام ہونے لگی۔ آپؑ نے اُسے تسلّی دیتے ہوئے فرمایا’’ اچھا ابھی جائو اور شام کو مجلسِ عدالت میں آنا، تمہاری داد رَسی کی جائے گی‘‘، شیطان چلا گیا۔

شام کو مجلسِ عدالت میں آپؑ اُس بوڑھے کا انتظار کرتے رہے، لیکن وہ نہ آیا۔ صبح کی مجلس میں پھر آپؑ کی نظریں بوڑھے کو تلاش کرتی رہیں، لیکن آپؑ دوپہر کو جیسے ہی بستر پر محوِ آرام ہوئے، دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا، تو پھر بوڑھے کے رُوپ میں شیطان موجود تھا۔ آپؑ نے نہایت نرمی سے کہا’’ تمھیں مجلسِ عدالت میں بلایا تھا، مگر نہیں آئے۔‘‘

بوڑھے نے بڑی لاچارگی سے کہا’’ اے خلیفہ! میری قوم بڑی خبیث ہے، اُنہیں جب پتا چلا کہ آپؑ مجلس میں فیصلہ کریں گے، تو ڈر گئے اور مجھ سے میرا حق دینے کا وعدہ کر لیا، لیکن ابھی جب مَیں اُن کے پاس گیا، تو وہ وعدے سے مُکر گئے۔‘‘ حضرت ذوالکفلؑ نے کہا’’ اچھا! ٹھیک ہے، آج شام آ جانا تاکہ تمہارا حق تمہیں دِلوایا جا سکے۔‘‘

اُس دوپہر پھر بوڑھے نے آپؑ کو باتوں میں لگا کر قیلولہ نہ کرنے دیا۔ شام کو آپؑ اُس کے منتظر رہے، لیکن وہ نہ آیا۔ دو دن تک آرام نہ کرنے کی وجہ سے آپؑ پر نیند کا شدید غلبہ تھا۔ چناں چہ تیسرے دن دوپہر کو نیند نے آپؑ کو عاجز کر دیا، تو گھر والوں سے کہا’’ آج قیلولے کے وقت دروازہ ہرگز نہ کھولیں۔‘‘ تاہم، آپؑ بستر پر دراز ہی ہوئے تھے کہ وہ بوڑھا پھر آموجود ہوا اور دستک دی۔

اہلِ خانہ نے کہا’’ خلیفہ کا حکم ہے، دروازہ نہیں کُھلے گا۔‘‘ بوڑھے نے کہا’’ مَیں دو دن سے اپنے معاملے کے لیے آ رہا ہوں، مجھے خلیفہ نے آج دوپہر خود بلایا ہے۔‘‘ لیکن گھر والوں نے دروازہ نہیں کھولا۔ بوڑھے نے کچھ دیر تو توقف کیا، پھر اپنے شیطانی عمل سے گھر کے اندر داخل ہو گیا اور کمرے کے دروازے پر دستک دینے لگا۔ آپؑ نے جب دروازہ کھولا، تو سامنے بوڑھے کو کھڑے دیکھا۔

اس پر آپؑ نے گھر والوں سے کہا’’ مَیں نے تو منع کیا تھا کہ آج دروازہ نہ کھولنا۔‘‘ گھر والوں نے جواب دیا’’ اللہ کی قسم! ہم نے دروازہ نہیں کھولا۔ آپؑ دیکھ سکتے ہیں کہ سب دروازے اور کھڑکیاں بند ہیں۔‘‘ آپؑ نے نظر دوڑائی، تو حیران رہ گئے۔ واقعی دروازے تو سب بند تھے۔ اب جو آپؑ نے غور سے بوڑھے کو دیکھا، تو حقیقتِ حال عیاں ہو گئی۔ آپؑ نے اُسے مخاطب کر کے فرمایا’’ اے اللہ کے دشمن! کیا تو ابلیس لعین ہے؟‘‘ وہ بولا’’ ہاں! مَیں ہی ابلیس ہوں۔

آپؑ نے پہلے میرے چیلوں کو عاجز کیا، وہ آپ ؑکو قابو نہ کر سکے اور اب مجھے بھی تھکا دیا۔ مَیں چاہتا تھا کہ آپؑ کو غصّہ دِلا کر غضب ناک کر دوں اور ایفائے عہد میں ناکام بنا دوں، مگر افسوس کہ مَیں خود ہی ناکام رہا‘‘(ابنِ کثیرؒ)۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت ذوالکفلؑ، حضرت الیسعؑ نبی کے خلیفہ اور اللہ تعالیٰ کے ولی تھے۔ ہو سکتا ہے کہ اُن کے خاص محبوب اعمال کی بناء پر اُن کا ذکر انبیائے کرامؑ کے ساتھ کیا گیا ہو اور اس میں بھی کوئی بعید نہیں کہ شروع میں وہ حضرت الیسعؑ کے خلیفہ ہی ہوں، پھر حق تعالیٰ نے اُنھیں منصبِ نبوّت عطا فرما دیا ہو‘‘ (معارف القرآن۔ ج۔6، ص۔220)۔

وفات اور مزار

امام طبریؒ کے مطابق ،حضرت ذوالکفلؑ نے75سال کی عُمر میں وفات پائی۔ بعض مفسرّین نے اُن کی عُمر 95برس تحریر کی ہے۔ شام کے دارالحکومت، دمشق میں جبلِ قاسیون پر آپؑ کا مزار ہے، جہاں ہر سال ہزاروں زائرین آتے ہیں۔ تاہم، عراق سمیت کئی اور مقامات پر بھی آپؑ سے منسوب مزارات ہیں۔واللہ اعلم