لاش برہنہ کیوں تھی؟ 14 وار کیوں کیے گئے؟ باپ بیٹے کا قتل معمہ بن گیا

فوٹو: جیونیوز 

کراچی پولیس کی تین دن تک کی سر توڑ کوششوں کے باوجود کلفٹن میں باپ بیٹے کے قتل کا معمہ حل نہیں ہوسکا۔

 تین روز قبل کلفٹن میں سیکیورٹی کے حوالے سے انتہائی حساس علاقے بلاک 4 میں باپ بیٹے کے دوہرے قتل کی واردات بدھ کی صبح ساڑھے 6 بجے سے 8 بجے کے درمیان ہوئی۔

پولیس کے مطابق 65 سالہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر فصیح عثمانی اور ان کے 22 سالہ بیٹے کامران عثمانی کی لاشیں صبح ان کے گھر کے بیڈ روم سے ملیں، واردات کے وقت دونوں باپ بیٹا سوئے ہوئے تھے۔

پولیس رپورٹ کے مطابق  5 افراد کو حراست میں لے کر پوچھ گچھ کے ساتھ ساتھ ہر ممکن زاویے سے تفتیش جاری ہے جب کہ گزشتہ روز ایس ایس پی انویسٹی گیشن طارق دھاریجو اور تفتیشی ٹیم کے ارکان نے کافی دیر تک مقتول ڈاکٹر فصیح عثمانی کے گھر کا تفصیلی دورہ بھی کیا۔

پولیس کے مطابق واردات کے بعد گھر پہنچنے والی مقتول ڈاکٹر کی اہلیہ مسز عافیہ سے تفصیلی ملاقات بھی کی گئی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ خاتون صبح ساڑھے 6 بجے گھر سے اکیلے واک کرنے کیلئے روانہ ہوئیں، وہ 8 بج کر 10 منٹ پر گھر واپس پہنچیں تو دوہرے قتل کی واردات ہوچکی تھی مگر خاتون نے گھر پہنچنے کے فوری بعد پولیس کو واقعہ کی اطلاع نہیں دی بلکہ پولیس کو کال 8 بج کر 40 منٹ پر کی گئی۔

خاتون خانہ کے بیان کے مطابق پولیس اس گتھی کو سلجھانے کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ گھر کا چھوٹا بیرونی دروازہ کھلا ہونے پر ملزم گھر کے اندر تک تو آگیا مگر اس نے گھر کے اندرونی مقفل کمرے کا دروازہ کیسے کھولا؟ ان دروازوں کے ساتھ زور آزمائی یا لاک توڑنے کی کوئی کوشش بھی سامنے نہیں آئی، گھر سے کوئی قیمتی چیز غائب نہیں ہوئی تو دوہرے قتل کا مقصد کیا؟

پولیس کے مطابق کچھ عرصہ قبل مقتول فصیح عثمانی اور ان کی فیملی کی اسی بنگلے کی بالائی منزل پر رہائش پذیر کرایہ داروں سے معمولی تکرار ہوئی تھی۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ دوہرے قتل کی وجہ یہ معمولی جھگڑا نہیں ہوسکتا۔

دوسری طرف پولیس توحید کمرشل اسٹریٹ پر مقتولین کی ایک دکان کے لگ بھگ 12 لاکھ روپے کے کرایہ کی عدم ادائیگی کے معاملے پر بھی تفتیش کر رہی ہے تاہم پولیس کے مطابق میمن کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے اس شخص نے کچھ رقم ادا کردی تھی بقیہ رقم کے لئے اتنا سنگین جرم سرزد کیا جاسکتا ہو یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا۔

پولیس کے مطابق خاندان کا امریکا آنا جانا تھا جس کے لیے انہوں نے کچھ عرصہ قبل گھریلو ملازمہ کو کام سے ہٹا دیا تھا جس کے بعد سے کوئی چوکیدار یا گھریلو ملازمہ نہیں رکھی۔

پولیس کے مطابق جائے وقوعہ سے لاشیں اٹھانے کے دوران سامنے آنے والے ایک اہم نکتے کا تسلی بخش جواب نہیں مل سکا کہ مقتول پروفیسر کا بیٹا 22 سالہ کامران عثمانی قتل کے وقت برہنہ کیوں تھا؟

اس سلسلے میں مقتول کی والدہ کا کہنا ہے کہ امریکی شہریت کے حامل اور اس معاشرے میں پروان چڑھنے والے ان کے صاحبزادے کی برہنہ ہوکر سونے کی بچپن کی عادت تھی۔

پولیس اس نقطے سے جڑے دوسرے معاملے کی گتھی بھی سلجھانے کی سرتوڑ کوشش کررہی ہے کہ ملزم نے مقتول کامران عثمانی کو قتل کرنے کیلئے تیز دھار آلے کے غیرمعمولی 14 سے زائد وار کیوں کیے؟ جبکہ مقتول فصیح عثمانی پر تیز دھار آلے کے محض 4 وار کیے گئے۔

مزید خبریں :